خیبر پختونخوا

شانگلہ کا مالٹا کیا مستقبل میں واقعی ملاکنڈ کے باغات کی ٹکر کا ہو گا

فی الحال یہ باغات اتنے زیادہ نہیں ہے کہ یہاں سے قومی سطح پر منڈیوں کو مال کی فراہمی شروع کی جائے لیکن آہستہ آہستہ یہاں پر مالٹے کے باغات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

طارق عزیز

سردی کے اس موسم میں ملاکنڈ کے علاقہ پلئ کے باغات کا مالٹا نہ صرف تمام صوبے بلکہ ملک بھر کے مارکیٹوں میں پہنچ چکا ہے اور پچھلے سالوں کی طرح امسال بھی اپنی مٹھاس کو برقرار رکھا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پلئ کے مالٹوں کی معیار کا کوئی ثانی نہیں لیکن شائد آئندہ چند سال میں شانگلہ کے باغات پلئ سے ٹکر کے قابل ہوجائیں۔

جی ہاں! پلئ کی طرح شانگلہ کے باغات سے بھی لوکل مارکیٹ میں مالٹوں کی ترسیل شروع ہوچکی ہے، فی الحال یہ باغات اتنے زیادہ نہیں ہے کہ یہاں سے قومی سطح پر منڈیوں کو مال کی فراہمی شروع کی جائے لیکن آہستہ آہستہ یہاں پر مالٹے کے باغات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

شانگلہ کے کیڑی گاؤں میں مالٹوں کے باغات کے مالک عبدالباسط کا کہنا ہے کہ یہاں کا مالٹا مٹھاس میں پلئ کے مالٹے کے ٹکر کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب مالٹا صرف ملاکنڈ، نوشہرہ اور ان علاقوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے اچھی قیمت اور مارکیٹ میں مانگ کی وجہ سے شانگلہ میں بھی کافی سارے کامیاب باغات لگ چکے ہیں-

عبدالباسط کے باغ میں تقریبا 1300 درخت ہے اور بقول ان کے اس سال باغات میں کافی اچھا اور بڑے مقدار میں مالٹا پیدا ہوا ہے- ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا  کہ ہم نے اس سال اپنا باغ ساڈھے چار لاکھ روپے میں بیچ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال مالٹے ذیادہ ہوگئے تھے لیکن پچھلے سال کے نسبت دانے کا سائز کم تھا -عبدالباسط کے مطابق عموما ایسا ہوتا ہے ایک سال مالٹے کا سائز اچھا ہوتا ہے لیکن فصل نسبتا کم ہوتا ہے جبکہ دوسرے سال تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے دانے کا سائز کم ہوجاتا ہے-

اسی گاوں کے سامنے بشام سوات روڈ پر اپکو کئی جگہ مالٹوں کے سٹالز ملیں گے جہاں مقامی لوگ مالٹے فروخت کرتے ہیں اور راستے پر آنے جانے والے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کراتے ہیں-

انہی ٹھیلوں پر مالٹے بیچنے والے ایک نوجوان صدیق اکبر نے بتایا کہ ہمارا باغ نسبتا چھوٹا ہے اسلئے ہم اپنا مالٹا بیوپاری کو بیچنے کی بجائے خود پرچون میں بیچ دیتے ہیں-ان کے مطابق فی درجن 150 سے 180 تک  لوگ بااسانی خرید لیتے ہیں-

” گاوں کے سامنے سڑک پہ اب سٹالز بڑھ گئے ہیں لیکن  ہمارے مالٹے دیگر باغات کی نسبت ذیادہ میٹھے ہیں اسلئے ہمارا پرانا گاہک ہم سے ہی مالٹے خریدتے ہیں- ان کے مطابق بیوپاری تقریبا 6 روپے تک فی  دانہ خریدلیتے ہیں لیکن خود مارکیٹ میں، میں اسے ڈبل میں فروخت کردیتا ہوں”

کیڑی کے لوگ مالٹوں سے نہ صرف پیسے کماتے ہیں بلکہ اپنے دوستوں ور رشتہ داروں کو بھی بھیج دیتے ہیں-

تقریبا ڈیڑھ سو درختوں پر مشتمل ایک باغ کے مالک انور عزیز کہتے ہیں کہ ہم اس باغ سے خود بھی کھاتے ہیں اور دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی دیتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی ہم باقی باغ بیچ دیں تو باغ کے خرچے کے علاوہ بھی کافی  رقم مل جاتی ہے-

انور عزیز کے ساتھ باغ میں آئے مہمان سردار واجد نے باغ کے تازہ مالٹے کھاتے ہوئے اس کے ذائقے کی تعریف کی- ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے سردار واجد  نے کہا کہ میں نے شانگلہ میں پہلی دفعہ مالٹےکے اتنے بڑے اور ذیادہ باغات دیکھے-

انہوں شانگلہ کے دیگر لوگوں سے بھی اپیل کی کہ ” شانگلہ کی مٹی کافی زرخیز ہے، جس کے پاس ایسی زمین ہو جس میں ایریگیشن چینل یا پانی کا کوئی دوسرا ذریعہ ہو تو وہ مالٹے کا باغ ضرور لگائیں”-

انہوں نے کہا کہ چونکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بروقت بارش نہیں ہورہی اور موسموں کے پورے نظام میں تبدیلی اچکی ہے اس لئے اب ان زمینوں پہ  گندم اور مکھی جیسے روایتی فصل ناکام ہونے لگے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ زمیندار بھی اپنے اپکو ماحول کے ساتھ ایڈجسٹ کرلیں-

انہوں نے کہا کہ مالٹے کے علاوہ دیگر باغات کا تجربہ بھی شانگلہ میں بہت کامیاب رہا ہیں، اسلئے مقامی لوگوں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے-  سردار واجد سمجھتے ہیں کہ  ان باغات سے دیگر فصلوں کے نسبت زیادہ امدن مل جاتا ہیں”-

چند سال پہلے تک ان زمینوں میں لوگ گندم اور مکھی جیسے فصل کی کاشت کیا کرتے تھے لیکن اب اکثر لوگوں نے اپنے زمینوں پہ باغات لگانے شروع کردئیے-

 

شاہد آحمد  کے مطابق تقریبا سنہ 1993-94 میں یہاں باغات لگانے کا آغاز ہوا تو میں نے بھی اپنے زمین پہ باغ لگایا جو کہ اج بہت کامیاب بھی ہے- ان کے مطابق ان زمینوں میں چند سال پہلے تک گندم اور مکھی کی  بڑی اچھی فصل ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ پانی کم ہونے لگا اور ان فصلوں کیلئے ناکافی ہوگیا تو ہم نے باغات کی طرف توجہ دی-

شاہد آحمد نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "زمین درختوں کے زیر سایہ آنے کی وجہ سے بھی فصل پیدا نہیں کرتی”

ان کے مطابق  گندم اور مکھئ کے کم فصل کے پیچھے ایک اور وجہ بھی ہے- "چند سال پہلے تک یہ زمینں زرخیز بھی ہوا کرتی تھی اور لکڑیوں کی ضرورت کم ہونے کی وجہ سے لوگ ذاتی زمینوں میں درختیں کم رکھتے تھے، لکڑیوں کی ضرورت کی وجہ سے لوگوں نے درخت لگانے شروع کئے  تو اس وجہ سے زمینوں پہ سورج کم پڑنے لگا اور اکثر زمینیں درختوں کے سائے میں چھپ گئے جس کی وجہ سے فصل متاثر ہوئی”-

شانگلہ کے اس گاؤں میں لوگوں نے مالٹے کے باغات کی طرف توجہ کیوں دی؟ اس حوالے سے دانش خان کہتے ہیں کہ یہ وہی پرانی زمینیں ہیں اور اب بھی اسی طرح گندم اور مکھی کا فصل پیدا ہوسکتا ہے لیکن اب لوگ زمینداری ہہ اتنی توجہ نہیں دیتے اور کاروبار اور سرکاری نوکریوں کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے باغ کو سنھبالنا نسبتا اسان بھی ہے اور اس کا امدن بھی ذیادہ ہیں-

دانش کا اپنا باغ بھی تھا لیکن سینکڑون درختوں پر مشتمل اس باغ  2010 کے سیلاب نے تباہ کیا- یکن دانش خان  اگلے سال اسی زمین پہ دوپارہ باغ لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں-

باغوں کے بیوپاری شاکر نے ٹی این این کو بتایا کہ ہم نے شانگلہ کے مختلف علاقوں رانیال،شاہ پور، چیچلو اور کیڑی میں تقریبا 16 بڑے باغات خریدے ہیں جس میں اندازتا 2 سے 3 کروڑ تک  مالٹے کے دانے ہونگے- ” انہی مالٹوں کو ایک مہینےتک سوات میں سٹور کرتے ہیں اور پھر نکال کر ملک کے مختلف منڈیوں میں پہنچادہیتے ہیں جن میں بٹ خیلہ پشاور لاہور اور کراچی کے منڈیاں شامل ہیں”-

شاکر نے مزید بتایا کہ ایک مہینہ گزرنے کے بعد مارکیٹ میں اسکی قیمت بڑھ جاتی ہے اور یوں ہمیں موجودہ وقت کے نسبت ذیادہ فائدہ مل جاتا ہے

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button