لحد میں اتارتے وقت بیٹے سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دکھایا
سٹیزن جرنلسٹ شاہ زیب
‘میں اپنے بڑے بیٹے اسفند کو کبھی بھلا نہیں پاؤں گا، اس کے شہید ہوجانے سے میری کمر ٹوٹ گئی ہے، ہم آج بھی اس کو یاد کرکے روتے ہیں اور غم کی زندگی گزار رہے ہیں’
یہ کہنا ہے ایڈوکیٹ آجون خان کا جو آرمی پبلک سکول کے سانحے میں شہید ہونے والے اسفند کے والد ہے، پشاور کے علاقے راحت آباد سے تعلق رکھنے والا اسفند کلاس دہم میں پڑھ رہا تھا۔
ٹٰن این این سے بات کرتے ہوئے ایڈوکیٹ آجون خان نے کہا کہ 16 دسمبرکے سانحے کے دن ان کا بیٹا اپنی موٹرسائکل پر سکول گیا تھا اور انہی دنوں میں نیا موبائل بھی لیا تھا جس پراسفند بہت خوش تھا لیکن انکو کیا معلوم تھا کہ اسفند کی زندگی کا یہ آخری دن ہے۔
اس افسوس ناک واقعے میں میرا لخت جگر سر پر گولی لگنے سے شہید ہوا تھا۔ ایڈوکیٹ آجون خان نے مزید کہا کہ شاید میں ایک ایسا بدقسمت والد ہوں جس نے اپنے جوان بیٹے کے جنازے کو کندہ دیا ہے او اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا ہے۔ اسفند کے والد نے غمزدہ ہوکر کہا۔
ایڈوکیٹ آجون خان کا کہنا تھا کہ ہم سب غم زدہ خاندان تقریبآ ہر مہینے میں ایک دن اکٹھے ہو کر اپنے لخت جگر کی یادیں تازہ کرتے ہیں او قرآن خوانی بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا غم کم نہیں ہوتا۔
قانون دان آخون نے بتایا کہ میں نے اس سانحے کے بعد اس عزم کا ارادہ کیا تھا کہ اپنے لخت جگر سمیت تمام آرمی پبلک سکول کے شہداء کو اپنی وکالت کے زریعے انصاف دلاؤنگا اور اپنے تمام وکلاء دوستوں کی بدولت پانچ سال کی محنت سے جوڈیشل کمیشن بنایا ہے اور یہ کمیشن اب سپریم کورٹ میں جمع ہوا ہے جس میں تین بار پیشی بھی ہوئی ہے اور میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ عدالت اس کمیشن میں شہداء اے پی ایس کو ضرور انصاف دے گا۔ آخون خان نے آبدیدہ ہو کرکہا کہ روز قیامت ان شہداء کے سامنے اپنی جدوجہد کو پیش کروں گا۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2016 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر چھ دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں ایک سو بتیس طلباء سمیت 147 افراد شہید ہوئے تھے جس میں سکول کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ اس دن اسفند کے والد کی طرح بہت سارے والدین نے اپنے بچوں کو کھویا تھا اور پورے ملک میں قیامت کا سماں تھا۔ 6 سال گزرنے کے باوجود بھی ان کو انصاف نہ مل سکا۔