‘گھر میں اب بھی بحث ان دونوں سے شروع اور انہیں پر ختم ہوتی ہے’
عاصمہ گل
پشاور میں ایک تقریب کے دوران ایک خاتون گم سم بیٹھی ہیں، تقریب کے سارے شرکاؤں کے چہروں پر افسردگی چھائی ہوئی ہیں، چند ایک افراد جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں سسکیاں بھی بھر رہی ہیں۔ ان میں 40 سالہ خاتون بھی شامل ہیں، وہ دو شہداء کی ماں ہیں اور ان کے دونوں بیٹے ایک ہی دن مار دیئے گئے تھے۔
یہ تقریب 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کی چھٹی برسی کے موقع کے مناسبت سے منعقد کیا گیا ہے جس میں ان ننھے شہیدوں کے والدین اور دوسرے ورثاء کے علاوہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شریک ہیں۔ شرکاء نہ صرف شہیدوں کے ایصال ثواب کے لئے قران خوانی کر رہے ہیں بلکہ ساتھ میں وہ ریاست پر زور بھی دے رہے ہیں کہ واقعے کے مجرمان کو قرار واقعی سزا بھی یقینی بنائی جائے۔
سیف اللہ اور نوراللہ کی والدہ یہ سب باتیں سن تو رہی ہیں لیکن بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ وہ بیٹوں کی یادوں میں گم ہیں۔
میرے سلام کے ساتھ وہ اچانک چونک سی گئی لیکن جلد ہی سنبھل کر جواب دیا اور نہایت شفقت کے ساتھ میرا مدعا پوچھا۔
میرے سوال کے جواب میں انہوں نے دل کی باتیں شئیر کرنا شروع کردی اور کہا کہ سیف اللہ اور نوراللہ کے علاوہ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔
‘وہ نویں اور دسویں جماعت کے طالب علم تھے، صبح میں نے خود انہیں تیار کرکے سکول بھیجا اور واپسی پر دونوں کی گولیوں سے چلنی لاشیں گھر آئیں’
انہوں نے کہا کہ وہ دن قیامت سے کم نہیں تھا ‘میں ان پر چان چھڑکتی تھی، ان کی موت کی خبر سننے کے بعد مجھے اپنا جینا فضول لگ رہا تھا، میں جب حملے کے دوران ان بچوں پر گزرے تکلیف کا سوچتی ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ ابھی میرا دل باہر نکل آئے گا’
یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جوآج سے چھ سال پہلے بیت سے لوگوں کی زندگی کی ساری خوشیاں چھن کر لے گیا تھا، وہ دن اتنے سال گزرنے کے باوجود آج بھی ان شہیدوں کی ماں کی چہرے سے غم کی لکیریں نہ مٹا سکا۔ ان بچوں کی والدہ نے ہچھکیاں لیتے ہوئے کہا کہ "اولاد کی کوئی نعم البدل نہیں” غم سے نڈھال، آشک بار آنکھیں لیے اپنے شہید بچوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے لئے تو ماں اپنی جان دیتی ہے ایک مان تکالیف سے گزر کر بچے کو جنم دیتی ہے، ان بچوں کے ساتھ ساری ساری رات جاگتی رہتی ہے، ماں اپنے بچوں کی خاطر وہ سب کچھ کرگزرتی ہے جسکا تصور بھی نا ممکن ہے۔ ” ماں خود بھوکی رہے کوئی پروا نہیں بس انکی کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے بڑے ہوکر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور باپ کابازوں بنے اور انکی کامیابیاں دیکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ” میرے پانچ بچوں میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے اور وہی دو بیٹے سانحہ اے پی ایس میں دہشت گردی کا نشانہ بنے، شہید سیف اللہ درانی اور شہید نوراللہ درانی کی بہنیں اپنے بھائیوں کے بے گناہ قتل کے متعلق اب بھی ہم سے سوال کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس انکے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ گھر میں باتوں کا آغاز اور اختتام اب بھی انکے لخت جگروں کے تذکرے پر ہوتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ انکے غم نے ہمیں زندہ درگور کردیا توں غلط نہ ہو گا۔
تقریب میں شہید حسن خان کا چھوٹا بھائی عروج خان بھی موجود تھا۔ گفتگومیں عروج خان نے کہا کہ ان کو اب بھی بھائی کی بہت یاد ستاتی ہے وہ ان کی بہن اور شہید ہونے والے بھائی کی یادیں اور شرارتیں اب بھی ذہن میں تازہ ہے، ہمارہ اوڑھنا بچونا ایک ساتھ تھا۔
عروج کا مذید کہنا ہے کہ ان کا بھائی جماعت دہم کے طالب علم تھا ان کے عمر کے سارے کزن اب بڑے ہوگئے ہیں، فیملی تقریبات کے دوران جب ان کے ہم عمر کزن کو اکھٹے دیکھتا ہوں اور ان میں وہ نہیں ہوتے تو دل نہایت آفسردہ ہوجاتا ہے۔
دسویں جماعت کے طالب علم شہید حسن خان کی ماں کاکہنا ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گرد حملےکو چھ سال مکمل ہوگئے لیکن ہمارے دلوں میں اپنے پیاروں کی دکھ اب بھی پہلے دن کی طرح تازہ ہیں ثاہے جتنے بھی ماہ و سال گزر جائے لیکن 16 دسمبر کا وہ قیا مت خیز دن ہم کبھی نہیں بھول سکتے جس نے ہمارے پیاروں کو ہم سے چینا تھا،لیکن یہ دیکھ کر دل کو تسلی ہوتی ہے کہ لوگ ہمارے بچوں کو یاد کرتے ہیں ہمیں عزت دیتے ہیں اور ہمارے دکھ میں برابر شریک ہیں ۔انھوں نے مذید کہا کی وہ قومیں کھبی پناہ نہیں ہو سکتی جو شہیدوں کو یاد رکھتےہیں اور آج کے دن بھی ہمارے شہید بچوں کو یاد کیا جا رہا ہےلیکن سانحہ اے پی ایس کی دکھ اب بھی اپنی جگہ پر ہے ااور اس دن کو بھلا نا ہماری بس میں نہیں ہیں ۔ جب تک ہماری سانسیں چلتی ہےتب تک یہ دکھ ساتھ رہے گا ۔
آرکائیو ہال پشاور میں شہیدا اے پی ایس ہال میں قرآن خوانی کے موقع پر موجود والدین کا کہنا تھا کہ جو واقعہ ان کےبچوں کے ساتھ ہوا ہے حکومت سے اپیل ہے کہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات رونما نہ ہو۔ دعائیہ تقریب کے منتظمین پاک یوتھ پارلمنٹ کے عہدیداروں محمد زبیر یوسفزئی، رومان خان کا کہنا تھا کہ ہم آغیار و ملک دشمن عناصر کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دشمن لاکھ مرتبہ ہمیں بندوق دیکھائیں ہم اس کا جواب قلم کی طاقت سے دینگے۔ دشمن لاکھ ہمیں آنکھیں دیکھائی جواب میں ہم کتاب دینگے۔
اس واقعہ کا ذمدار چاہے کوئی بھی ہو لیکن اس درد ناک سانحہ نے بہت سے خاندانوں کو اجھاڑ کے رکھ دیا ہیں۔ آج سے چھ سال پہلے آج کا دن کیا ہوا تھا یہ سوچ کرہی ہر آنکھ اشکبار اور دل میں درد کے ٹھیسیں اٹھنے لگتی ہے۔ یہ وہ دن تھا جس نے بہت سے گھرانوں کے خوشیوں کو عمر بھر کیلئے روند کر رکھ دی ہیں۔۔