تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان، نجی سکولز نے حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑا دیں
ناہید جہانگیر
ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر حکومت نے تعلیمی اداروں کی بندش کا اعلان تو کیا ہے لیکن نجی تعلیمی ادارے اس اعلان سے خوش نظر نہیں آ رہے اور چند ایک اداروں نے حکومتی احکامات کے برعکس اب بھی سکولز و کالجز کھول رکھے ہیں۔
پشاور میں ایسے ہی چالو حالت میں ایک سکول کے پرنسپل سہیل خان کہتے ہیں کہ ان کے علاوہ ضلع میں سینکڑوں دیگر نجی تعلیمی ادارے بھی کھلے ہیں اور یہی حال صوبے کے تقریبا تمام اضلاع کا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے چھ مہینے تعلیمی سال کے ضائع ہو گئے ہیں اب چونکہ دو مہینوں سے سکول کھل گئے تو اس میں بچوں نے اتنا کچھ نہیں پڑھا، بچے تھوڑے سے تعلیم کے لحاظ سے چل پڑے کہ گورنمنٹ نے دوبارہ سکول بند کرنے کا اعلان کیا. ان کا مزید کہنا تھا کہ سکول کی ٹائمنگ کم کرکے تین گھنٹے کر دی گئی ہے تاکہ بچوں کا مزید وقت ضائع ہونے سے بچ جائے، سکول می بچے تھوڑے اینگیج ہوں گے. دوسرا یہ کہ ہر سکول میں دسمبر کے مہینے میں امتحانات ہوتے ہیں چاہے وہ گورنمنٹ سکول ہو یا پرائیویٹ وہ بھی شروع ہیں تو سکول بند نہیں کرسکتے۔
محمد سہیل کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی ایسا نہیں کر سکتے جیسا کہ گورنمنٹ سکول میں بغیر امتحان کے بچوں کو پروموٹ کیا جاتا ہیں. پرائیویٹ سکول والے تو باقاعدہ امتحان لے کر نتیجے کے بعد سٹوڈنٹس کو آگے پروموٹ کرتے ہیں. محمد سہیل کا کہنا تھا کہ تھوڑے سے وقت میں بھی سکول جیسا ماحول مہیا کرے تو بچوں کے لیے بہتر ہوگا کیونکہ بچے پچھلی دفعہ بھی چھٹیوں میں پڑھائی میں کمزور ہوگئےتھے تو اس دفعہ بچوں کو دھان میں رکھ کر فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف بھی جانا پڑھے لیکن بچوں کی مستقبل کی خاطر ادارے بند نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر گورنمنٹ تعلیمی اداروں کو چھٹیاں بھی دے دیں تو ٹیچر ز کی تنخواہ انکے اکاونٹ میں مہینے کے مہینے آتی ہیں تو انکو فرق نہیں پڑتا جبکہ پرائیویٹ سکولوں کا معاملہ ان سے ہٹ کر ہے، پرائیویٹ سکولز میں ٹیچرز اور سکول کے مالکان کا سارا انحصار فیسوں پر ہے، اگر بچے نہیں آئیں گے تو والدین فیس نہیں دیں گے، اور فیس نہیں ملے گا تو اساتذہ و دیگر سٹاف کی تنخواہیں کہاں سے آئے گی؟ ٹیچرز کی بھی ضروریات ہوتی ہیں اس کے علاوہ مالکان کی بھی ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا۔
پشاور کے ایک دوسرے سکول میں پڑھانے والی ثمرین نے بھی محمد سہیل کے ساتھ اتفاق کیا اور کہا ‘سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو ماہانہ تنخواہیں بنک میں منتقل ہوجاتی ہیں لیکن ہم پرائیویٹ اساتذہ اپنی فریاد لے کر کہاں جائیں گے، پچھلے لاک ڈاؤن میں بھی فاقوں تک نوبت آگئی
ثمرین نے آن لائن کلاسز کو بھی اس معاشرے میں وقت کا ضیاع بتایا اور کہا بچے کلاس میں دھان سے نہیں پڑھتے تو آن لائن کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بچے غور سے پڑیںگے۔
انہوں نے کہا کہ جیسے کلاس میں بچے سیکھتے تھے اب اسی طرح آن لائن کلاسز سے بچے نہیں سیکھ سکتے کیونکہ ایک تو سکول جیسا ماحول بچوں کو گھرمیں نہیں ملتا اور نہ ہی ویسا ماحول گھرمیں ممکن ہے، نہ بچے کلاس جیسے سوالات کر سکتے ہیں اور نہ اساتذہ ویسے جوابات دے سکتے ہیں۔
ثمرین نے کہا کہ کورونا کے پہلے لہر میں بھی زیادہ تر بچوں کو گھروں پرنیٹ میسر نہیں تھا اور اب بھی وہی مسلہ ہوگا اور یوں یہ تعلیمی سال کورونا کی نذر ہوجائے گا۔
کورونا کی دوسری لہر جہاں پر سب چیزوں کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے گی وہاں پر تعلیمی سر گرمیوں کو متاثر کرنے میں سب سے پہلے کامیاب ہو چکی ہے. جہاں ایک طرف بچے چھٹیوں کی خوشی مناتے ہوئے خوش ہیں اور پڑھائی اور مستقبل کے بارے میں کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے لیکن دوسری جانب والدین اس لہر سے بہت زیادہ ناخوش ہیں کیونکہ ان کے بچوں کا تعلیمی سال تھوڑا بہت چل چکا تھا لیکن کورونا کے دوسرے لہر نے ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
نہم جماعت کی مدیحہ جس کا تعلق رامداس سے ہیں اور ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھتی ہیں لیکن وہ ان طلباء جیسی نہیں جو کہ کورونا کی وجہ سے چھٹیوں پر خوشیاں مناتی پھرے بلکہ وہ کم عمری میں بھی کافی سلجھی ہوئی سمجھدار معلوم ہوتی ہے۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے مدیحہ نے کہا کہ کورونا وبا کی وجہ سے پچھلی دفعہ بھی سکول بند ہو گئے تھے تو انکا تعلیمی لحاظ سے بہت نقصان ہوگیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ آن لائن کلاسز برائے نام تھے کیونکہ پڑھایی ویسے نہیں ہوتی تھی جسے وہ کلاس کے دوران پڑھتے تھ نہ صحیح پڑھائی ہوتی تھی اور نہ ہی کاپیوں اور ہوم ورک کی چیکنگ۔
مدیحہ نے کہا کہ اب کورونا کے دوسرے لہر میں حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کو 11 جنوری تک بند کیا ہے لیکن پرائیویٹ سکول کے بچے گھر کے کپڑوں میں سکول جاتے ہیں اوروہ بھی روزانہ اپنے سکول جاتی ہیں لیکن سکول اوقات کار 2 گھنٹے ہو گئی ہیں تو اس میں خاص پڑھائی نہیں ہوسکتی۔ کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی سال پہلے سے خراب ہو چکا تھا لیکن اب مزید کسر کورونا کی دوسری لہر نے پوری کر دی. مدیحہ کا کہنا ہے کہ اگر کورونا اس طرح جاری رہا تو تعلیم کا بیڑا غرق ہو جائے گا. ایک سال تو ضائع ہو گیا لیکن اس کا جو نقصان آگے ہوگا اس کا نتیجہ چند سال بعد سامنےآئے گا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جس کے دو بچے سکول میں پڑھ رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے حکومت نے جو اقدام آٹھایا ہے اور سکولز دوبارہ بند کیے ہیں تو اب وہ کنفیوز ہیں۔ چونکہ بچوں کی صحت بھی ضروری ہے، بچے تو نہ چھ فٹ کے فاصلے پر بیٹھے ہیں، نہ ہی وہ ہاتھ کو دھوتے ہیں، ماسک بھی بچوں کو پہنا کر سکول بھیجواتی تھی لیکن پھر پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ سکول میں سماجی دوری پر عمل کرتے ہیں بھی یا نہیں.
خاتون نے کہا کہ اب بچے انکے سامنے ہیں، چھٹیاں ہو گئی ہے تو اب بچوں کا خود خیال رکھتی ہیں۔ بچے سلامت ہوتو پڑھائی ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ دوسری بچوں کی پڑھائی متاثر ہونے پر وہ کافی فکر مند اور اداس بھی ہیں۔ بچے سکول کی طرح گھر پر نہیں پڑھتے، پہلے بھی چھ مہینوں کی چھٹیاں تھی اور اب پھر سے 10 جنوری تک چھٹیاں مل گئی ہے تو پورا سال بچوں کا ضائع ہو چکا ہے۔