خیبر پختونخواکورونا وائرس

پشاور میں سمارٹ لاک ڈاؤن صرف اعلانات کی حد تک، نفاذ میں کوئی سنجیدہ نہیں

 

شاہ نواز، محمد طیب

پشاور کی گلبہار کالونی کی گلی نمبر 3 کورونا کیسز میں اضافے پر پچھلے 4 دن سے حکومتی کاغذات و اعلانات کی حد تک سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ محلہ میں زندگی اسی انداز میں رواں دواں ہے جیسے لاک ڈاؤن سے پہلے تھی۔ نہ پولیس کی جانب سے لوگوں کی آمد و باہر جانے پر روک ٹوک ہے اور نہ ہی دوکانیں اور دیگر کاروبار زندگی بند کی گئی ہے۔
ملک میں کرونا وائرس کی دوسری لہرکے پیش نظر حکومت ان علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاون کا نفاذ کررہی ہے جہاں پر مثبت کیسز رپورٹ ہوتے ہیں تاہم اب سمارٹ لاک ڈاون کو نہ تو حکومت سنجیدہ لے رہی ہے اور نہ ہی عوام۔
اس کی زندہ مثال پشاور گلبہار میں بھی ضلعی انتظامیہ کی جانب سمارٹ لاک ڈاون نافذ ہے تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ برائے نام سمارٹ لاک ڈاون ہے اوریہاں زندگی معمول کی طرح رواں دواں ہے۔
گلبہار کے رہائشی شاہد نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میڈیا کے ذریعے ان کو معلوم ہوا کہ یہاں پر لاک ڈاون لگ چُکا ہے مگر یہاں پر نہ کوئی ذمہ دار آیا اور نہ ہی اس گلی کو بند کیا گیا اور لوگ اپنے معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا اس گلی میں سرکاری سکول بھی ہے جوکہ بند نہیں ہے اور روزانہ بچے سکول آتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت پولیو مہم کی طرح کرونا سے بچاؤ کیلئے گلی محلے میں اگاہی مہم کا انعقاد کرے تاکہ لوگ ایس او پیز پر عمل کریں۔
دوسری جانب دوسری لہرمیں احتیاط اور حکومتی احکامات بارے عمل پر بات کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر پشاور اشفاق خان نے کہا کہ کرونا وباء کا دوسرا لہر شروع ہو چکا ہے جس میں کیسز سنگل ہندسے سے ڈبل ہوچکے ہے اور صوبے کے مختلف مقامات میں متاثرہ افراد موت جاں بحق بھی ہوئے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ پھر بھی عوام ایس او پیز پر عمل نہیں کرتی اور پبلک مقامات پرہجوم رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میں مختلف مقامات پر انتظامیہ نے سمارٹ لاک ڈاون نافذ کیا تاہم وہاں پر بھی عوام تعاون نہیں کررہی۔ انہوں نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مجبوراَ عوام کو ایس او پیز پر عمل کرنے میں سختی کریگی۔ انہوں نے گلبہار میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کے باؤجود نرمی کو عوام کی غیرسنجیدگی قرار دیا۔

اے ڈی سی اشفاق خان نے ایس او پیز پر عمل کرنے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر400 تک یونٹس جن میں مارکیٹیں، بازار، پمپس اور لوگ شامل ہیں اِن کی چیکنگ کی جاتی ہے اور ایس او پیز پر عمل نہ کرنے پر ان کو جرمانہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رات 10 بجے سے ہر جگہ پر لاک ڈاؤن نافذ ہے جن میں میڈیکل سٹور، تندور اور جنرل سٹو رز سمیت اشیائے ضروریہ کے علاوہ تمام تر دکانیں اور دیگر کام کی جگہیں بند رہے گی۔
گلبہار کی طرح حیات آباد میں بھی سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ ہے لیکن وہاں پر کسی نہ کسی حد تک سختی کی جا رہی ہے، میڈیکل سٹورز، جنرل سٹورز، تندور اور دیگر ضروری اشیاء کی دوکانوں کے علاوہ تمام بازار بند ہیں اور علاقے میں غیر ضروری آمدورفت پر بھی پابندی ہے۔
لیکن حیات آباد میں پراپرٹی ڈیلر نور رحمان لاک ڈاؤن کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو لاک ڈاؤن نہیں لگانا چاہئے کیونکہ لاک ڈاؤن سے کاروبار بند ہو جاتا ہے جس سے مزید پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ باہر ممالک میں حکومت جب لاک ڈاؤن لگاتی ہے تو وہاں کے مکینوں کو خوراک اور دوائی سمیت تمام تر ضروریات زندگی پہنچاتی ہے جبکہ یہاں پر تولاک ڈاؤن کے بعد کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ایس او پیز پر عمل کے بارے انہوں نے کہا کہ حکومت خود بھی ایس او پیز پر عمل نہیں کرتی اور ہر جگہ ہجوم رہتا ہے یہاں تک کے بی آر ٹی بسوں میں بھی بہت ہجوم ہوتا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف بھی کارنرز میٹنگز اور دیگر سیاسی پروگرامات کر رہی ہیں اور خود بھی ایس او پیز پر عمل نہیں کرتی تو عوام کو کیوں ایس او پیز پر عمل کرنے کے لیے کہتی ہے۔

ملک میں کرونا کیسز میں ایک بار پھرتیزی آئی ہے اور ہسپتالوں پربوجھ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے عوام بھی شش و پنج کا شکار ہوگئے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت دوبارہ ہسپتالوں کی او پی ڈیز کو بند کردے اور ایک بار انکو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی خاتون زینب بی بی ایسی ہی متاثرہ لوگوں میں شامل ہے جن کا ایک بیمار بیٹا ہسپتال بند ہونے سے فوت ہو گیا تھا۔ زینب کا کہناہے ‘میری دو بیٹیاں اور بیٹا تھا بیٹا تھیلیسمیا کا مریض تھا اور اُس کو او پازٹیو خون کی اشد ضرورت تھی لاک ڈاون کی وجہ ہسپتالیں بند تھی میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں خون مل جائے لیکن لاک ڈاون کی وجہ سے تمام سرکاری اور نجی ہسپتالیں بند تھی جس کی وجہ میرے بیٹے کو خون نہیں دیا جا سکا جس کی وجہ وہ فوت ہوگیا’
لاک ڈاون کے دوران چھ ماہ سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند تھیں اس کے ساتھ نجی کلینکس بھی تین ماہ تک بند تھے جس کی وجہ سے زینب کی طرح لاکھوں لوک متاثر ہوئے تھے، کورونا وباء کی موجودہ دوسری لہر کے دوران حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند نہ کرانے کی یقین دہانی کی ہے لیکن پھر بھی صوابی سے تعلق رکھنے والے نظار علی کی طرح بہت سے لوگ کو اب بھی اس حوالے سے اندیشہ رکھتے ہیں۔
نظار علی کا کہنا ہے کہ گزشتہ لاک ڈوان سے دس دن پہلے اُسکا بیٹا بیمار پڑ گیا تھا جب مقامی ہسپتال لے جایا گیا اور وہاں پر ڈاکٹر نے چیک اپ کیا تو پتہ چلا کے ان کے بیٹے کے دل میں سوراخ ہے جس کے بعد انہوں نے علاج جاری رکھنا چاہا لیکن کرونا کی وجہ سے لاک ڈاون لگا جس کی وجہ سے تمام او پی ڈیز بند ہوگئے تو انکے بیٹے کا علاج متاثر ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ انکے بیٹے کا اپریشن تو ہوا لیکن اُس کا علاج اب بھی جاری ہے اور انکو خدشہ ہے کہ کہیں دوبارہ اوپی ڈیز بند نہ ہوجائے لہذا وہ حکومت وقت سے عاجزانہ اپیل کرتا ہے کہ دوبارہ او پی ڈیز بند نہ کریں تاکہ انکے بیٹے کا علاج جاری رہے۔


کرونا وائرس کیسز میں کمی کے ساتھ پشاور کے کئی ہسپتالوں میں کرونا وارڈزبھی بند کردیئے گئے تھے لیکن صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ایل آر ایچ پشاور کے ترجمان عاصم خان کا کہنا ہے کہ دوسری لہر شروع ہونے کے بعد انہوں نے ہسپتال کے اندر بند کرونا خصوصی کمپلکس کو دوبارہ بحال کردیا ہے تاکہ اس دوران عوام کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
عاصم کا کہنا ہے کہ ہسپتال کے اندر 250بستروں پر مشتمل خصوصی کمپلیکس کو دوسری لہر کے دوران حکام کی ہدایات پر دوبارہ کھول دیا گیا ہے جس میں اس وقت سات کورونا مریض داخل ہیں جن میں دو کورونا پازٹیو، پانچ مشتبہ اور ایک مریض آئی سی یو بیڈ پر ہیں، ان کا کہنا ہے مریضوں کی تعداد زیادہ نہیں لیکن پھر بھی ہسپتال ہرطرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، خصوصی کمپلیکس میں تمام عملہ موجود اور الرٹ ہے۔
عاصم کی طرح خیبرپختونخوا کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیاز نے بھی کم انتظامات اور ہسپتالوں کی بندش کے حوالے عوام کے خدشات کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی ہسپتال میں انتظامات کے حوالے سے کوئی کوئی کمی نہیں ہوگی، ڈاکٹر نیاز کا پورے صوبے میں انتظامات کے حوالے سے مزید کہنا تھا کہ کورونا مریضوں کے لیے اس وقت پورے صوبے کے تمام ڈویژنز میں 2ہزار آئسولیشن بستریں مخصوص ہیں۔ اس کے علاوہ سات سو ہائی یونٹس ڈیپنڈینسی بیڈز بھی ہیں جن پر ہائی پریشر آکسیجن مشین ہیں اس کے علاوہ جنرل آئی سی اوز کے علاوہ 200بستروں پر مخصوص بیڈز بھی ہیں جن پر تمام وینٹی لیٹرز مشینیں فعال اور موجود ہیں اورعملہ بھی تربیت یافتہ ہے۔
اگر چہ حکومتی اہلکار کرونا کی دوسری لہر کے لیے بھر پور انتظامات کے دعوے کر رہے ہیں لیکن پھر بھی اس حوالے سے بعض ہسپتالوں سے شکایات سامنے آرہے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button