سٹیزن جرنلزمقبائلی اضلاعکورونا وائرس

دہشت کے لئے مشہور باڑہ تحصیل اب لڑکیوں کے معیاری تعلیم میں پہچان بنا رہا ہے

سٹیزن جرنلسٹ خکلا خٹک
کچھ عرصہ قبل بدامنی اور دہشت کے لئے مشہور قبائلی ضلع خیبر، باڑہ کا علاقہ برقمبر خیل میں لڑکیوں کے لئے نیا بنایا جانے والا تعلیمی ادارہ سباؤن سکول اینڈ کالج سسٹم دن بہ دن مشہور ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم ایک خواب تھا اب وہ علاقہ اپنی پہچان بدل رہا ہے۔
سباون سکول اور کالج سسٹم ان چند تعلیمی درسگاہوں میں ہے جو نہ صرف مقامی خواتین و طالبات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے بلکہ ان کو ایک زمہ دار شہری بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
ادارے کے مالک رحیم شاہ نے کہا کہ سکول و کالج میں دن بہ دن بڑھتے داخلے اور بچیوں کی تعلیم سے پیار دیکھ کر انہوں نے فصلہ کیا ہے کہ اس ادارے کو دوسرے قبائلی اضلاع کو بھی بہت جلد توسیع دیں گے تاکہ آنے والی نسل بہترین تعلیم حاصل کر سکے۔ ‘میرا مقصد نوجوانوں کو مثالی تعلیم مہیاء کرنا ہے’۔
ادارے کے مالک نے کہا کہ اس سکول اور کالج کو انہوں نے ایک مشن کے طور پر کھولا ہے’ مشن یہ ہے کہ علاقے کی بچیاں معیاری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکیں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان بچیوں میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ ہر فیلڈ میں نام کما سکتی ہیں’۔
قبائلی علاقوں کی خواتین جو کبھی ایف سی آر کی سختیوں اور علاقے کی پسماندگی کی وجہ سے تعلیم کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی اب اچھے تعلیم کے مواقع انکے دروازے پر ہوں گے، اب حالات بدل چکے ہیں امن اور خوشحالی ڈیرہ جما چکی ہے۔
کلثوم آفریدی سباؤن سکول اینڈ کالج میں بارہویں جماعت کی طالبہ ہے، کہتی ہیں کہ اس سکول نے ان کی زندگی بدل دی ہے۔ ہم پہلے سوچ بھی نہیں سکتے کہ معیاری تعلیم حاصل کرسکیں گے لیکن اب یہ خواب پورا ہو رہا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند ہے۔
‘ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارے گاؤں میں اتنا اچھا ادارہ ہے، ہم اپنے اساتذہ سے مطمئن ہیں لیکن خواتین کو گھروں سے باہر اعلیٰ تعلیم کی اجازت نہ ملنا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ گاؤں میں کوئی جامعہ (یونیورسٹی) نہیں ہے میری حکومت سے استدعا ہے کہ اس مسلئے کو جلد از جلد حل کیا جائے’۔
پہلے یہاں خواتین کی تعلیم کو ایک گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب سباون جیسے ادارے لوگوں کی سوچ تبدیل کر رہے ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شروع میں سکول میں بچیوں کی تعداد 250تھی اور اب 700 سے تجاوز کرچکی ہے۔
دوسرے اداروں کی طرح یہاں داخلے کے لئے کوئی سخت طریقہ کار یا اصول نہیں ہے بلکہ اس یقین کے ساتھ یہاں طالبات کو داخلہ دیا جاتا ہے کہ تعلیم کا بنیادی حق سب کو برابر ملنا چاہیے اور یہی سب کا بنیادی اور آ ئینی حق بھی ہے۔
سباؤن میں پڑھنے والی تیسری اور ساتویں جماعت کی طالبات ذاکرہ اور فاطمہ کے والد محراب آفریدی نے کہا کہ وہ اس سکول سے بہت مطمئن ہیں، یہاں کے قابل اساتذہ کی بدولت بچیوں کو معیاری تعلیم مل رہی ہے، فیس بھی مناسب ہے اسکے علاوہ شام کو دینی تعلیم کا بھی انتظام ہے اس لئے علاقے کے زیادہ تر والدین اپنے بچیوں کو اس سکول سے تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کشادہ کلاس رومز سمیت اس سکول و کالج میں طالبات کو دیگر تمام سہولیات جیسے لائبریری، بجلی اور آنے جانے کے لئے گاڑیوں کا انتظام میسر ہے۔ یہ نمایاں خصوصیات اس ادارے کو علاقے کے باقی تعلیمی اداروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
سکول و کالج کے مالک رحیم شاہ کہتے ہیں کہ ان کا مقصد اس ادارے سے پیسے کمانا بالکل بھی نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر مہینے وہ اس ادارے میں دو لاکھ روپو تک اپنی جیب سے ڈالتے ہیں۔
‘ادارے کے لئے 25 خواتین خواتین اساتذہ کا تعلق پشاور یا دوسرے ملحقہ علاقہ جات سے ہیں جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ ہم ان کو اچھی خاصی تنخواہیں دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ان کو مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی فراہم کر رہے ہیں، جبکہ اس کے علاوہ سکول کی سکیورٹی کے لئے بھی 4 ملازمین رکھے ہوئے ہیں’
تنخواہوں اور سکول کے دوسرے خرچے ان فیسوں سے پورے نہیں ہو رہے اور نہ ہی ہم فیسیں بڑھانے کی سوچ رکھتےہیں۔ اس ادارے کو میں ایک فلاحی ادارے کی طرح چلا رہا رہوں جس کے لئے مقامی سرمایہ دار لوگوں چندہ بھی دیتے ہیں۔ رحیم شاہ نے بتایا۔
رحیم شاہ شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے فلاحی کام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور لوگوں میں مختلف طریقوں سے اس ادارے کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ فنڈنگ باہر سے ہوتی ہے کبھی خواتین کے تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں لیکن ہم نے ان کے سامنے ڈٹے رہنے کی قسم کھائی ہے۔
تعلیمی ادارے میں غیر نصابی سرگرمیوں جیسے کھیل کیلئے بھی صحت مند ماحول دیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ طالبات سے باقاعدہ ٹیسٹ وغیرہ بھی لئے جاتے ہیں۔
خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے میں اس سکول کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا، حال ہی میں اس سکول کو کالج کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔
زیتون آفریدی اس سکول میں بارہویں جماعت کی طالبہ ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس علاقے میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی دینی چاہئے، کیونکہ کورونا کی وجہ سے سکول پھر بند ہو جائے گا تو ہم لوگ آ ن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں گے۔
اس طرح سیکنڈ ائیر کی دوسری طالبہ ہاجرہ آفریدی نے سکول و کالج میں انگریزی کورس شروع کرنے کی درخاست کی ہے تاکہ جو لڑکیاں انگریزی میں کمزور ہیں وہ اس سے استفادہ حاصل کر سکیں۔
سکول کے مالک رحیم شاہ کے مطابق بہت جلد ڈگری کلاسوں کا اجراء بھی کیا جائے گا جو کہ خواتین یونیورسٹی کی طرف قبائلی ضلع خیبر کا پہلا قدم ہوگا۔
علاقے کے لوگ پر امید ہیں کہ یہ سکول و کالج اس پہاڑی علاقے میں قیمتی پتھر کی اپنی الگ پہچان و حیثیت برقرار رکھے گا اور آنے والی نسلوں کو باخبر اور باشعور بنا کر تاریخ رقم کرے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button