تعلیمی ادارے بند ہوں گے یا نہیں، صورتحال اب بھی غیرواضح
رفیع اللہ خان
خیبر پختونخوا میں کورونا وباء کی دوسری لہر کے بعد گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 80 سے زائد تعلیمی ادارے بند کر دئے گئے ہیں تاہم کورونا کیسز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور بند ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے فی الحال تعلیمی ادارے بند نا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصلہ کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل جاری رکھنے یا تعطیلات کے متعلق آج اہم فیصلہ کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں آج اجلاس ہوگا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے تعلیم شرکت کریں گے لیکن زیادہ تر طلبہ تعلیمی ادارے بند کرنے کے حق میں نہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والی کرن عنایت کا کہنا ہے کہ پہلے ہی ان کے پانچ مہینے ضائع ہو چکے ہیں اب اگر حکومت دوبارہ سکولز بند کردیں گی تو اس سے مزید تعلیم متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ ‘کیا کورونا وائرس صرف سکولوں میں ہے؟ ہم باقاعدہ ماسک، سینیٹائزر اور سماجی دوری کا اہتمام کرتے ہیں حکومت جلسے جلوسوں پر پابندی کیوں نہیں لگاتی جو تعلیمی ادارے بند کرنے کی باتیں کرتے ہیں’ کرن نے مطالبہ کیا کہ حکومت سکولز بند نا کریں کیونکہ پہلے سےان کا تعلیمی سفر کافی متاثر ہوا ہے۔
طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ انکے والدین بھی تشویش میں مبتلا ہیں کہ آیا پھر سے تعلیمی اداروں کو بند تو نہیں کیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر سکولوں کی دوبارہ بندش کے فیصلے پر والدین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سیدو شریف سے تعلق رکھنے والے فضل الرحمان نے بتایا کہ سکولوں کی دوبارہ بندش سے ان کے بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہوگا لہذا حکومت آن لائن کلاسز کے بجائے سکولوں میں ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کے ساتھ تعلیم فراہم کریں۔ انہوں نے بتایا کہ غریب عوام بچوں کو انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کرسکتے۔
سوات میں اب تک کورونا کیسز سامنے آنے کے ساتھ پانچ سکولوں کو کچھ دنوں کے لئے بند کر دیا گیا ہے البتہ متعلقہ افسران کا کہنا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اسسٹنٹ تعلیم افیسر برائے خواتین عشرت پروین نے بتایا کہ کورونا کی دوسری لہر کے ساتھ تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر عمل درآمد مزید سخت کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بچیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اس حوالے سے ہم نے سکولوں کا ایک پلان ترتیب دیا ہے اور ہم اس پلان کے تحت کار فرما ہے۔
تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی صورت میں تعلیمی سرگرمیاں ایک بار پھر آن لائن کلاسز کی تجویز زیر غور ہے جس پر سوات کے ایک نجی سکول کے پرنسپل سلیم خان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کی پہلی لہر میں بھی آن لائن کلاسز کا تجربہ کیا گیا تھا جس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے خود آن لائن کلاسز کی کافی کوشش کی تھی لیکن بچوں کے ساتھ وہ سہولیات موجود نہیں ہے کہ ہر بچے کے ساتھ لیپ ٹاپ ہو، ان کے پاس نیٹ کی سہولت بھی موجود ہو اور وہ ایک شیڈول کلاسز لے یہ ممکن نہیں ہےلہذا اس بار بھی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
انہوں نے بتایا کہ توقع کی جارہی ہے کہ حکومت موسم سرما کی چھٹیاں منسوخ کرکے سیشن کو اپریل تک توسیع دے تو امکان ہے کہ سمارٹ سلیبس اور چھٹیوں کی منسوخی سے بچوں کو کوئی ریلیف مل جائے۔
سوات ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیس کے مطابق سوات میں لڑکوں کے کل سکولوں کی تعداد ایک ہزار ہے جس میں 810 سکول پرائمری ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کی سکولوں کی تعداد ضلع بھر میں 642 ہے جن میں 527 سکولز پرائمری شامل ہے، لہذا اگر حکومت آن لائن کلاسز کا پروگرام دوبارہ شروع کریں تو اس میں سب سے زیادہ پرائمری لیول کے بچے متاثر ہونگے جن کی تعداد مڈل، ہائی اور ہائی سیکنڈری کے بچوں سے کئی زیادہ ہے۔