پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ تنخواہوں سے محروم، مالکان کا فیسیں نہ ملنے کا شکوہ
رفیع اللہ خان
عدالتی احکامات کے باوجود کئی پرائیوئٹ سکول مالکان نے اساتذہ کو کورونا وباء کے دوران تنخواہیں ادا نہیں کی ہیں جس میں سوات سے تعلق رکھنے والی صوبیہ بھی شامل ہے۔ صوبیہ نے بتایا کہ کورونا وباء کے دوران بند سکولوں کی وجہ سے مالی مشکلات سے دوچار ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ساتھ کسی نے کوئی امداد نہیں کی ابھی جب سکولز کھل گئے تو ہمیں امید تھی کہ تنخواہیں مل جائے گی لیکن سکول والے کہتے ہیں کہ بچوں نے فیسیں جمع نہیں کی ہے کیونکہ کورونا وباء کی وجہ سے بچوں کے والدین بھی متاثر ہوئے ہیں اور وہ بھی کاروبار بند ہونے کی فریاد کررہے ہیں۔صوبیہ کہتی ہے’ ہم نے قرضے لئے ہیں کیونکہ اس دوران عید بھی گزری اور بیماریوں کا سامنا بھی کیا، اس وجہ سے ہم پر کافی بوجھ ہے اور اس مشکل کی گھڑی میں حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی امداد نہیں کیا’
پرائیوئٹ سکول مینجمینٹ ایسوسی ایشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ پرائیوئٹ سکولز کی تعداد آٹھ ہزار چھ سو ہے جس میں ایک لاکھ چوبیس ہزار اساتذہ پڑھا رہے ہیں جبکہ چوبیس لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ ہزاروں ایسے سکولز بھی ہیں جن کی رجسٹریشن پرائیوئٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی سے نہیں ہوئی ہے۔
ایک پرائیوئٹ سکول کے استاد خان محمد پر امید تھے کہ انہیں پانچ مہینوں کی تنخواہ مل جائے گی لیکن نوکری سے برطرفی کے ڈر سے تنخواہ کے مطالبے پر چپ رہ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ کورونا وباء کے دوران انکی آمدنی زیرو تھی لیکن ان کا ایک بھائی سرکاری سکول ٹیچر ہے جس نے انکی پوری فیملی سپورٹ کی ہے۔ خان محمد نے بتایا کہ جس طرح حکومت اور سکولز مالکان نے وعدے کئے تھے اسے لگ رہا تھا کہ اسے چھٹیوں کی تنخواہیں مل جائے گی لیکن تنخواہ تو درکنار انکی ایک بہن بھی اسی سکول میں پڑھاتی تھی جس کو تنخواہ کے مطالبے پر نوکری سے فارغ کر دیا گیا جس پر وہ عدالت جائیں گے کیونکہ ان کو نا تو مارچ کی تنخواہ ملی ہے اور نہ ہی باقی مہینوں کی۔
دوسری جانب پرائیوئٹ سباون گرلز ماڈل سکول کے مالک سید انور شاہ شکایت کر رہے ہیں کہ بچوں کے والدین فیسیں جمع نہیں کر رہے اس لئے وہ بلڈنگ کرایہ اپنے جیبوں سے ادا کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے وہ اساتذہ کو تنخواہ نہیں دے سکتے۔
انہوں نے بتایا کہ بلڈنگ کرایوں میں مالکان نے ایک روپے رعایت بھی نہیں کی ہے جبکہ والدین فیسیں نہیں دے رہے کہہ رہے ہیں کہ بچوں کو سکول نہیں بھیجا ہے تو فیس کس چیز کی ادا کریں۔ انور شاہ نے بتایا کہ پرائیوئٹ سکولوں کے لئے کوئی ریلیف کا اعلان نہیں کیا گیا لہذا پرائیوئٹ سکول میں جتنے بھی افراد کام کر رہے ہیں ان کو یتیموں کی طرح نہ چھوڑا جائے اور حکومت کم از کم ان کے لئے ریلیف کا اعلان کریں۔
پرائیوئٹ سکول مینجمینٹ ایسوسی ایشن ضلع سوات کے صدر احمد شاہ کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور پرائیوئٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی کے اعلیٰ حکام سے بات کی ہے لیکن انہیں کہیں سے بھی گرین سگنل نہیں ملا ہے۔
احمد شاہ کہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں پچیس تعلیمی بورڈز ہے جن کو نہم اور دہم امتحانات کی مد میں پینتالیس ارب روپے جمع ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ان پینتالیس ارب روپے کا بھی مطالبہ کیا ہے کہ یا تو وہ والدین کو واپس کر دے یا ان بچوں کے فیسوں میں ایڈجسٹ کریں لیکن ابھی تک اسکا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔احمد شاہ نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں تقریبا پانچ سو سکولز مکمل ختم ہوئے ہیں جبکہ کورونا پینڈیمک میں پرائیویٹ سکولز کے دو پرنسپلز نے خودکشیاں بھی کی ہے۔
یاد رہے کہ والدین کو ریلیف دینے کے لئے عدالتی فیصلے کے مطابق جن سکولوں کی فیسیں چھ ہزار سے کم ہے وہ دس فیصد اور جن کی فیسیں چھ ہزار سے زائد ہے وہ سکول فیسوں میں بیس فیصد رعایت کرینگے۔ فیصلے کے مطابق فیسیں لینے والے سکولز اپنے سٹاف کو تنخواہ دینے کا پابند ہونگے۔
سلمیٰ جہانگیر
کرونا لاک ڈاون کی وجہ سے سکول مالکان اس قدر پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ بعض نے سکول تک بیچ دیئے، ان میں بونیر سے تعلق رکھنے والا عظمت بھی شامل ہے۔
‘کرونا لاک ڈاون میں میرا سکول بری طرح متاثر ہوا، مجھے اور میرے سٹاف کو اس وقت سخت معاشی مسائل کا سامنا تھا اسی لیے مجبورا میں نے اپنے سکول کسی اور کے حوالے کردیا’
یہ کہنا ہے ضلع بونیر کی تحصیل چغرزئی سے تعلق رکھنے والے عظمت کا جنہوں نے 2013 میں پرائمری لیول کا ایک پرائیویٹ سکول شروع کیا۔ بودال گاؤں میں یہ سکول اگست 2020 تک چلتا رہا۔
سکول کے مالک عظمت نے بتایا کہ انکے سکول میں طلباء کی تعداد 150 تھی، جن میں زیادہ تر بچوں کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا، کچھ بچے یتیم تھے، اسکے علاوہ وہ بچے بھی ان کے ساتھ زیر تعلیم تھے جو کہ گورنمنٹ نے واؤچر سکیم کے تحت ان کو دیئے تھے، یہ بچے 2018 سے 2020 تک انکے ساتھ رہے، ان بچوں کی کوئی فیس انکو نہیں دی گئی تھی۔
‘میرے سکول میں 8 اساتذہ تھے، ایک چچا بطور ہیلپر ہمارے ساتھ کام کر رہا تھا، اس سارے سٹاف کی روزی روٹی کا انحصار یہی سکول تھا، مارچ سے ستمبر تک کرونا کا جو دور چلااس میں ہماراسکول بہت متاثر ہوا اس دوران ہمیں بہت سخت حالات کا سامنا تھا، میرے سکول میں جتنے بھی اساتذہ تھے سب کے رزق کا وسیلہ بند ہو گیا، ہم والدین کو فیس کا کہہ نہیں سکتے تھے اور نہ ہی والدین یہ برداشت کر سکتے تھے اور نا ہی میرا ضمیر مجھے اس بات کی اجازت دے رہا تھا کہ والدین پر اس مشکل وقت میں فیسز کا بوجھ ڈال دوں، اساتذہ کو تنخواہ دینے کا میرے پاس کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا’ عظمت نے افسردہ ہوتے ہوئے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ ویسے تو جب سے لاک ڈاؤن شروع ہو اتھا تب سے وہ بذات خود اور انکے سکول سے منسلک اساتذہ معاشی مسائل سے دوچار تھے لیکن رمضان اور عید کے دنوں میں انکی پریشانی دوبالا ہوگئی کیونکہ اس دوران اخراجات بڑھ گئے تھے۔ اساتذہ کے مشکلات کو دیکھتے ہوئے عظمت نے انکے لیے چندہ کیا، فلاحی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کیا جنہوں نے تھوڑی بہت ہماری مدد کی لیکن سب کچھ برداشت سے باہر تھا۔
عظمت کے مطابق آخرکار انہوں نے اساتذہ کو اور جگہوں میں کام کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ وہ انکو اس حالت میں نہیں دیکھ سکتے تھے، عظمت نے سکول مقامی لوگوں کے حوالے کیا اور اب خود ایک پرائیوٹ ادارے میں 10000 روپے ماہانہ پر کام کر رہا ہے اور زندگی گزار رہا ہے۔