خیبر پختونخواکورونا وائرس

‘کورونا وائرس کے ڈر نے مجھے گھر والوں سے بھی دور کردیا تھا’

 

سٹیزن جرنلسٹ سلمیٰ جہانگیر

‘کورونا لاک ڈاون کے دنوں میں ٹیلی ویژن اور اخبار دیکھنے کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں تھا جس نے مجھے ذہنی مریض بنا دیا’
یہ کہنا ہے پشاور یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم محسن خان کا جو پشاور سول کوارٹر کا رہائشی ہے۔
انہوں نے کورونا وبا کے دنوں میں اپنی ذہنی تناو کے بارے میں کہا کہ جب کورونا کا وبا پھیلا تو اس دوران وہ بس صرف ٹی وی ہی دیکھتے تھے. خبروں میں کورونا کا ہی ذکر ہوتا تھا کہ آج اتنے کیسز سامنے آئے ہیں,  مسلسل ٹی وی دیکھنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں تھا جسکی وجہ سے وہ ذہنی مریض بن گئے۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انکو بھوک نہیں لگتی تھی جس سے دن بدن انکی صحت خراب ہونا شروع ہوئی اور بے آرامی کا بھی شکار ہوئے۔
محسن خان نے مزید کہا کہ انکے دماغ میں صرف ایک ہی بات تھی کہ کورونا کتنا پھیل گیا ہے اور یہ ڈر ہمیشہ رہتا کہ پتہ نہیں کب انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لیں. ساری رات جاگتا رہتا کہ کہیں کورونا انکو اور انکے خاندان یا گاؤں کے کسی شخص کو نا ہو جائے اور خدانخواستہ اگر یہ بیماری انکو ہو گئی تو وہ کیا کریں گے. بس انہیں سوچوں کی وجہ سے انکی نیند غائب ہو گئی تھی جس سے وہ بہت بےچین رہتا تھا. محسن نے کہا کہ اکثر آدھی رات کو اٹھ کر بلکل نفسیاتی مریض کی طرح ریکٹ کرتا دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوتی اور بدن کانپنے لگتا.
جتنا وقت گزر رہا تھا توانکی حالت بھی خراب ہوتی جا رہی تھی کیونکہ انکی سوچ میں اب بھی یہی بات تھی کہ کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اب آگے ہوگا کیا. یہ تو بہت جلد انکو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ آخر میں وہ اس حد تک نفسیاتی مریض ہو گیا کہ وہ اپنے گھر والوں سے بھی ڈر محسوس کرنے لگا اور انکی کوشش ہوتی تھی کہ گھر والے ان کے نزدیک نا آئے یہ حالت دیکھ کر گھر والے بھی پریشان تھے۔محسن خان نے کہا۔
انہوں نے بتایا کہ گھر والے انکاعلاج کرانا چاہتے تھے لیکن ہسپتال اور او پی ڈی بند تھے. اور ان دنوں ہسپتال جانا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا کوئی بھی شخص ہسپتال جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔
آخر کار بڑے بھائی نےایک سائیکاٹرس سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا. انہوں نے فون پر ہی انکو راضی کیا اور علاج کیا جس سے انکی حالت 70 فیصد بہتر ہوئی لیکن اب بھی وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ابھی بھی یہی ڈر ہے کہ کہیں کورونا کا دوسرا لہر نا آ جا ئے یا کوئی دوسری وبا نا پھیل جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button