خیبر پختونخواکورونا وائرس

تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر عمل درآمد کے حوالے سے اساتذہ اور والدین مشکلات کا شکار

عبدالستار

ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی 15ستمبرسےتعلیمی ادارے کھول دیئے گئے ہیں اور حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کو کرونا ایس او پیز پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں جس میں سماجی فاصلہ، سینیٹائزر اور ماسک کااستعمال شامل ہیں۔ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم نے بھی دیئے گئےایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے کئی تعلیمی اداروں کو سیل کیا ہے۔

گورنمنٹ ہائیرسیکنڈری سکول نمبر3مردان کے پرنسپل حافظ زبیرسکول میں ایس اوپیز پر عمل کرنے کے دوران مشکلات کے متعلق بتاتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں کلاس رومز کی کمی اور طلباء کی تعداد زیادہ ہونے سے ایس اوپیز پر عمل کرنے کے دوران مشکلات ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو ایس اوپیز ہمیں حکومت کی جانب سے ديئے گئے ہیں ہماری کوشش ہے کہ سو فیصداس پر عمل کریں اور روزانہ صبح سکول آنے والا ہربچہ سینٹائزرسپرے کے زریعے سینیٹائزڈہوتاہے اس کے لئے ہم نے پانچ فٹ کے فاصلے پرپوائنٹس بنادئے ہیں اور طالب علم ایک پراسس سے گزرتاہے اور یہ پراسس بھی ایک مشکل عمل ہے کیونکہ ہم نے دس دس ٹیچرزکی ڈیوٹیاں صرف اس پراسس کے لئے لگادی ہیں اور انکا صرف یہ کام ہوتاہے کہ سماجی فاصلہ طلباء کے درمیاں برقرار رکھے اور سینٹائزیشن پر توجہ دے۔

اس کے باجود کہ ہم نے تمام طالب علموں کو بتابھی دیا ہے کہ ماسک کے علاوہ کوئی طالب علم سکول میں داخل نہیں ہوگا لیکن وہ طالب علم جن کے پاس ماسک نہیں ہوتاتو ہم سکول سے اس کو ماسک مہیا کردیتے ہیں بجائے اس کے کہ اس طالب علم کو واپس گھر بھیج دیں اور اس کا پڑھائی کا وقت ضائع ہوجائے، سماجی فاصلے میں مشکلات موجود ہیں خصوصاًان سکولوں میں جن کے پاس کلاس رومز کی کمی ہیں لیکن پھر بھی ہم ایس او پیز پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔

اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر برائے فیمیل ایجوکیشن مسرت جبین کا کہنا ہے کہ کرونا ایس او پیزپر عمل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے لیکن کوشش کررہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کو کھلا رکھا جائے انہوں نے کہا کہ سرکاری سکولوں میں بچیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اوران سکولوں میں ایس اوپیز پر عمل کرنا بہت بڑا چیلنج ہے جس کے لئے ہم نے سکولوں میں عملے سمیت بچیوں کو ماسک کا پہننا ضروری کردیا ہے اور سکولز کو ڈیجیٹل ترمامیٹربھی مہیا کردیئے گئے ہیں اور سماجی فاصلے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ جس سکولوں میں طالبات کی تعداد زیادہ ہے تو وہ کلاس وائز سکول آئینگے۔

کروناوائرس وبا میں کمی آنے کے بعد سکول کھلنے سے سکول عملے کے ساتھ والدین بھی پریشان ہیں کہ کہیں انکے بچوں کو کروناوائرس نہ لگ جائے۔ مردان سے تعلق رکھنے والی عقیلہ سنبل کہتی ہے کہ حکومت کے احکامات کے بعد اپنے تین بچے سکول بھیجتی ہیں لیکن اس حوالے سے وہ فکرمند رہتی ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنے بچوں کو کروناوائرس کے حفاظتی تدابیرکے ساتھ سکول بھیجتی ہوں اوربچوں کو تیار کرتے وقت ماؤں کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ چھوٹے بچے ماسک نہیں پہن سکتے لیکن ہمیں اپنے بچوں کو کروناوائرس سے بچاؤکے حوالے سے سمجھانا ہوگا۔

اساتذہ کہتے ہیں کہ سکولز میں بچوں کی حاضری کم ہے لیکن سنبل نامی طالبہ کروناوائرس کے خطرے کے باوجود تعلیم کو آگے لے جانا چاہتی ہے وہ کہتی ہے کہ مشکلات تو ہے لیکن کروناوائرس کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ رک گیا تھا اورہم اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ کو بھی ایس او پیز پر عمل کرنے کے دوران مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک نجی تعلیمی ادارے کے استاد ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پہلے کلاس روم میں طالب علموں کی پوری تعداد موجود ہوتی تھی لیکن اب ایس او پیز کے مطابق کلاس روم میں بیس سے زیادہ طالب علموں کو نہیں بٹھا سکتے، اساتزہ اورطالب علموں کو مسلسل ماسک کے استعمال میں بھی مشکلات ہیں لیکن ایس او پیز کے مطابق تعلیمی اداروں کو چلائینگے۔

یادرہے کہ رواں سال مارچ کے مہینے میں کروناوائرس پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے ملک بھرمیں تعلیمی ادارے بندکردیئے گئے تھے  لیکن اب ان کو مرحلہ وار کھول دیا گیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button