پشاور میں کچرے سے گیس بنانے کا نیا منصوبہ، حقیقت یا فسانہ؟
افتخار خان
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے کے دارالخلافہ پشاور میں پلاسٹک ویسٹ سے لیکوئیڈ پٹرولیم گیس (ایل پی جی) بنانے کا ازمائشی منصوبہ شروع کیا ہے لیکن اداروں کی ایک دوسرے سے عدم معاونت کی وجہ سے منصوبہ تعطل کا شکار ہے۔ صوبائی حکومت اس سے پہلے بھی اس قسم کے کئی منصوبے شروع کراچکی ہیں لیکن تاحال ایک بھی فعال نہیں ہے۔
شہر کے پلاسٹک ویسٹ سے ایل پی جی بنانے کے پائلٹ پراجیکٹ کا افتتاح رواں سال 22 جولائی کو وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے کیا تھا اور انہوں نے اس موقع پر کہا تھا کہ ڈائریکٹریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا یہ منصوبہ نہ صرف توانائی کے پیداوار کے لئے بہت مفید ثابت ہوگا بلکہ اس سے شہر کی گندگی کو اچھے طریقے سے ٹھکانے میں مدد بھی ملے گی۔
ڈائریکٹریٹ آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی (ڈوست) کے مطابق اس آزمائشی منصوبے میں فی الوقت روزانہ کی بنیاد پر 100 کلو استمال شدہ پلاسٹک سے 50 سے 60 کلو تک گیس پیدا کی جا رہی ہے اور منصوبے میں یہ خصوصیت ہے کہ اسے بہت آسانی کے ساتھ بڑے پیمانے پر شروع کیا جاسکتا ہے۔
ایل پی جی پروڈکشن کے اس منصوبے کے انچارج محمد سعد کا کہنا ہے کہ پائلٹ پراجیکٹ پر ادارے کے تقریبا 10 لاکھ تک روپے خرچ ہوئے ہیں جبکہ اس میں مشینری کے ساتھ ساتھ دیگر تمام اخراجات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ڈائریکٹوریٹ نے واٹر سپلائی اینڈ سینیٹیشن کمپنی پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی) کو ایک پروپوزل بھیجا ہے جس میں انہیں اس منصوبے کو بڑے پیمانے پر شروع کرنے کے لئے پارٹنرشپ کی درخواست کی گئی ہیں۔ منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں ہم پشاور شہر کے چار، پانچ جگہوں (ٹرانسفر سٹیشنز) پر پلاسٹ ویسٹ سے ایل پی جی بنانے کے پلانٹس لگائیں گے۔ ہر پلانٹ پر ہم آغاز میں 1 ٹن کچرے سے گیس پروڈیوس کریں گے جبکہ آہستہ آہستہ انہیں دو اور پھر تین ٹن فی پلانٹ پر جائیں گے۔ 5 سٹیشز پر پلانٹس لگانے سے ہم روزانہ 10 سے 15 ٹن کچرے کو توانائی میں منتقل کرسکتے ہیں۔
منصوبے کے انچارج نے کہا کہ فی الحال اس منصوبے پر 90 لاکھ روپے تک خرچ ہوں گے جن میں مشینری اور ورکنگ کاسٹ بھی شامل ہیں لیکن ہم جتنے بڑے سطح پر اس کو لے کر جائیں گے اتنی ہی اس کی لاگت میں کمی آئے گی۔
ڈائریکٹوریٹ آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی کے عہدیدار کے مطابق ادارے کی جانب سے جو پروپوزل ڈبلیو ایس ایس پی کو بھیجا گیا ہے انہیں ابھی تک موصول نہیں ہوا اس لئے اس منصوبے پر ابھی تک عملی کام کا آغاز نہیں ہوسکا ہے۔
دوسری جانب ڈبلیو ایس ایس پی نے بھی اس قسم کے منصوبے سے بے خبری کا اظہار کیا ہے۔ کمپنی کے ترجمان حسن خان کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے کسی منصوبے کے حوالے سے علم ہی نہیں ہے، جب پروپوزل آئے گا تو اس کے بعد ہی اس پر کچھ کہا جا سکے گا۔
دوسری جانب ڈبلیو ایس ایس پی کے ایک دوسرے عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے اس منصوبے کا باقاعدہ جائزہ لینا شروع کردیا ہے اور بہت جلد انہیں نتیجہ مل جائے گا کہ آیا یہ منصوبہ نافذ العمل ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ باہر ممالک میں پلاسٹک ویسٹ سے توانائی بنانے کی بہت مثالیں موجود ہیں لیکن ہمارے یہاں پلاسٹک کے کچرے کا معیار ایسا نہیں ہے کہ یقینی طور پر اسے کامیاب منصوبہ کہا جاسکے۔
منصوبے کے آئیڈیا نے پہلے ہی گلوبل ایوارڈ جیتا ہے
پلاسٹک کے کچرے سے کلین انرجی بنانے کا منصوبے کا آئیڈیا اسلام آباد کے سعد بن اعظم کا ہے جس نے پچھلے سال ایک بین الاقوامی مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ سعد بن اعظم نے گرینوویشن نامی سٹارٹ اپ کا آغاز غلام خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینیئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے انکیوبیشن سنٹر سے کیا تھا جس میں انہیں خیبرپختونخوا کے محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی کا تعاون حاصل تھا او اب وہی ادارہ اسے عملی شکل بھی دے رہی ہے۔
سرکلر اکانومی پر شیل گلوبل اینوویشن کے نام سے یہ عالمی مقابلہ شیل انٹرنیشنل ہر سال منعقد کرتی ہے۔ 2019 کے مقابلوں میں 99 ممالک سے مختلف لوگوں نے آئیڈیاز شئیر کی تھیں جن کے لئے 144 ممالک سے ووٹنگ ہوئی تھی اور سعد بن اعظم کے آئیڈیا نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ سعد کے مطابق انہیں نہ صرف اپنے ملک بلکہ کئی باہر ممالک سے بھی لوگوں نے ووٹ دئے تھے۔
سعد کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کچرے کو توانائی میں منتقل کرنا سرکلر اکانومی کی ایک بہترین مثال ہے اس لئے ان کے اس آئیڈیا نے دنیا بھر کے مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔
ایوارڈ جیتنے کے بعد شیل انٹرنیشنل نے انہیں پاکستان میں اپنے کنٹری ہیڈ سے ملایا اور انہی کی گائیڈینس اور ہدایات کے نتیجے میں یہاں تک پہنچے کہ آئیڈیا کو عملی شکل دے سکیں۔
کیا آئیڈیا یہاں نافذالعمل ہے؟
پشاور یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل سائینس ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین پروفیسر ڈاکٹر حزب اللہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی اچھوتا آئیڈیا نہیں ہے۔ اس پر دنیا بھر میں کام ہو رہا ہے اور کامیابی سے پلاسٹک کچرے سے توانائی حاصل کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں ریسائکلڈ ڈیزل فیول جسے آر ڈی ایف کہا جاتا ہے کافی مشہور طریقہ ہے کچرے سے ڈیزل بنانے کا، اور اس پر بہت سے ممالک میں کام ہوتا ہے۔ اسی طرح کچرے سے بجلی بنانے کا منصوبہ یا طریقہ بھی کافی معروف ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حزب اللہ کا کہنا ہے کہ جب پلاسٹک کے کچرے کو ایک خاص طریقے سے ہائی ٹمریچر پر جلایا جاتا ہے تو اس سے پٹرولیم مصنوعات پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹر حزب اللہ نے کہا کہ انہوں نے ڈبلیو ایس ایس پی کے لئے ایک تحقیق کی ہے جس کے مطابق پشاور میں پیدا ہونے والے پلاسٹک کچرے سے روزانہ کی بنیاد پر 124 میگا واٹ تک بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔
ان کے مطابق دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی ایسے منصوبوں کے کامیابی کے امکانات ہوتے ہیں لیکن کامیابی کا انحصار منصوبے کے برقرار رہنے پر ہے۔ یہاں ہمارے طلباء بھی ایسے چھوٹے پراجیکٹس بناتے ہیں لیکن اصل مسئلہ ایسے منصوبوں کا کمرشل لیول پر نافذ العمل نہ ہونا ہوتا ہے جس کی بڑی وجہ اس پر آنے والے اخراجات ہیں۔
پروفیسر کے مطابق کمرشل لیول پر ایسے منصوبوں پر بہت بڑے اخراجات آتے ہیں جو کہ ہمارے جیسے ممالک یا اداروں کے لئے یہ پورے کرنا یا برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
دوسری جانب منصوبے کے انچارج سعد بن اعظم کا کہنا ہے کہ اگر وہ کمرشل لیول پر اس منصوبے کو شروع کرنا چاہے تو 2 ٹن پلاسٹک کچرے کے پلانٹ پر 80 سے 90 لاکھ روپے تک لاگت آئے گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس پلانٹ پرسارے اخراجات سمیت فی کلو گیس 80 روپے تک پڑے گی جو کہ مارکیٹ میں 120 روپے سے زائد پر پہلے سے ہی دستیاب ہے۔
پشاور میں کچرے کی روزانہ پیداوار
2017 کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق پشاور کی آبادی 42 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں 30 لاکھ شہری علاقوں میں آباد ہیں۔
شہر کی بیشتر یونین کونسلوں (43) میں صفائی واٹر اینڈ سینیٹیشن کمپنی (ڈبلیو ایس ایس پی) کی ذمہ داری ہے جس کا کہنا ہے کہ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار ٹن گند جمع ہوتا ہے جسے ٹھکانے لگانے کیلئے مختلف مقامات مقرر کیے گئے ہیں۔
کینٹ ایریا میں اس طرح کے ڈھیر اس کے علاوہ ہیں جہاں ایک اندازے کے مطابق 100 ٹن گند یومیہ جمع ہوتا ہے۔
ڈبلیو ایس ایس پی کے ترجمان حسن علی کے مطابق شہر کی گندگی ٹھکانے لگانے کیلئے شمشتو اور موسیٰ زئی کے علاقوں میں مقامات مختص کیے گئے ہیں جہاں گند باقاعدہ دفن کیا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل پشاور کے رہائشی علاقوں کے بیچ گند گزارنے کے معاملے پر مختلف مقامات پر شہریوں اور ڈبلیو ایس ایس پی اہلکاروں کے درمیان لڑائی جھگڑے سامنے آئے تھے۔
اپریل2018 میں ایک کیس کی سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ نے بھی ڈبلیو ایس ایس پی کو رہائشی علاقوں میں کچرا ٹھکانے لگانے سے منع کر دیا تھا اور شمشتو میں ڈمپنگ سائٹ کیلئے اراضی حاصل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
کمپنی کے ترجمان کے مطابق ہائیکورٹ کے احکامات کے فوری بعد شمشتو کے علاقے گڑھی فیض اللہ میں ڈمپنگ سائٹ (لینڈ فِل) کیلئے 8 سو 19 کنال اراضی حاصل کی گئی جہاں گند ٹھکانے لگانے کا عمل جون 2018 سے شروع کیا گیا ہے۔
ترجمان کے اندازے کے مطابق یہ سائٹ اگلے بیس برسوں کیلئے کافی ہے جبکہ معیاد پوری ہونے اور سائٹ فِل ہونے کے بعد وہاں باقاعدہ چمن اگایا جائے گا۔
اسی طرح ماحولیات اور ویسٹ منیجمنٹ کے حوالے سے ایک معروف نام میاں مقبول حسین نے 2016 میں اپنی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا تھا کہ ضلع پشاور میں روزانہ کی بنیاد پر جمع ہونے والا کچرے اور فضلے کا متعلقہ ادارے صرف 40 فیصد ہی ٹھکانے لگا پاتے ہیں جبکہ باقی کا 60 فیصد گلی کوچوں اور بازاروں میں پڑا رہ جاتا ہے۔
تاہم ڈبلیو ایس ایس پی کے ترجمان حسن علی دعویٰ کرتے ہیں کہ یومیہ شہر سے سات تا ساڑھے آٹھ سو ٹن کچرا ٹھکانے لگایا جاتا ہے گرچہ بعض علاقوں میں صفائی پی ڈی اے اور کینٹونمنٹ بورڈ کی بھی ذمہ داری ہے۔
خیبرپختونخوا میں کچرے سے توانائی بنانے کے دیگر منصوبے اور ان کا موجودہ احوال
پشاور میں کچرہ پلاسٹک سے گیس بنانے کا منصوبہ صوبہ میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کچرے سے بجلی اور گیس کے مختلف منصوبے شروع کئے گئے لیکن موجودہ وقت میں ان میں ایک بھی فعال نہیں ہے۔
- مردان میں کچرے سے بجلی کا منصوبہ صرف میڈیا اشتہاروں تک رہا
اس سلسلے میں مئی 2018 میں مردان میں کوڑا کرکٹ سے بجلی بنانے کے منصوبے کے لئے حکومت نے چین کی ایک کمپنی کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت شہر کے سولڈ ویسٹ سے 12 میگا واٹ بجلی بنانی تھی۔
اس معاہدے کا نہ صرف صوبے بلکہ ملک بھر کے میڈیا میں کافی چرچہ رہا لیکن منصوبے کے موجودہ صورتحال کے حوالے سے جب واٹر سپلائی اینڈ سینیٹیشن کمپنی مردان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ منصوبہ نافذ العمل نہیں تھا اس لئے ختم کردیا گیا ہے۔
کمپنی کے ترجمان راحت خان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے بعد جب مردان کے کچرے کی سٹڈی کی گئی تو پتہ چلا کہ اس میں صرف 40 فیصد ایسا ہے جس سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جبکہ باقی 60 فیصد کھاد میں بدلی جاسکتی ہے۔ سٹڈی سے واضح ہوگیا کہ اس سے بجلی بنانے کا منصوبہ فائدے کی بجائے نقصان کا سودا ہے تو اس پر عمل درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
دوسری جانب پشاور کے صحافی عبدالروف یوسفزئی تنقید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی یہ شروع سے خاصیت رہی ہے کہ کسی بھی منصوبے کی فیزیبیلٹی رپورٹ جانے بنا سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر خوب چرچا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مردان کے کچرے سے بجلی بنانے کے منصوبے کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسے منصوبے ہیں جو فزیبیلیٹی رپورٹ بنانے سے پہلے ان کے مختلف اداروں کے ساتھ معاہدے کئے گئے۔
- پشاور میں کچرے سے بجلی بنانے کا منصوبہ صرف کاغذوں تک محدود
2015 میں پشاور میں بھی نجی یونیورسٹی سی کاز نے ڈائریکٹریٹ آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے تعاون سے اس طرح کا ایک منصوبہ شروع کیا تھا اور اس مقصد کیلئے 43 لاکھ کی لاگت سے حیات آباد میں باقاعدہ ایک پلانٹ بھی لگایا گیا تھا۔
یہ منصوبہ شروع کرنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر ریاض محمد نے دعویٰ کیا تھا حکومت اگر تعاون کرے اور روزانہ کی بنیاد پر انہیں ہزار تا 12 سو ٹن کچرا فراہم کرے تو 20 ہزار کلوواٹ تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
یہ پلانٹ فعالیت کے کچھ ہی عرصہ بعد نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر بند کردیا گیا تھا۔
- طالبعلم کا کچن کے کچرے سے بائیوگیس بنانے کا منصوبہ نافذ نہ ہوسکا
2015 میں کرک سے تعلق رکھنے والے میڈیکل کے ایک طالب علم عبید خان نے کچن ویسٹ سے بائیوگیس بنانے کا ایک منصوبہ شروع کیا تھا جس پر ان کے مطابق انہوں نے 5 لاکھ روپے تک خرچہ کیا تھا اور تجربہ کامیاب بھی رہا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے حکومت کو ایک پروپوزل بھیجا تھا کہ اگر پشاور میں اس کے ڈیزائن کردہ 4 پلانٹس لگائے جائے تو نہ صرف تمام شہر کو انتہائی کم قیمت پر بائیوگیس مہیا کیا جاسکے گا جس سے ایل پی جی اور ایندھن کے لئے لکڑیوں کے کاٹنے میں کمی آئے گی بلکہ کچن ویسٹ مناسب طریقے سے ٹھکانے لگنے سے یہ منصوبہ کافی ماحول دوست بھی ہے۔
حکومت نے زبانی بہت سے وعدے کئے مگر حقیقت میں اس طالبعلم کی کسی قسم کی مدد نہ کی جس پر وہ دلبرداشتہ ہوکر وہ منصوبہ اور اپنی فیلڈ ہی چھوڑ گئے۔ عبید کا کہنا ہے کہ فیلڈ چھوڑنے کے بعد انہوں نے آئی آر میں ماسٹرز کیا اور اب اسلام اباد میں ایک ویب چینل کے ساتھ بطور اینکر کام سرانجام دے رہے ہیں
کیا موجودہ منصوبے کا حال بھی پچھلے منصوبوں کی طرح ہوگا؟
منصونے کے انچارج سعد اس حوالے سے پرامید ہے کہ یہ عملی شکل بننے سے پہلے ہرگز بند نہیں ہوگا۔ وہ کہتے ہیں کہ منصوبے کے لئے نہ صرف ڈبلیو ایس ایس پی بلکہ پشاور کا ضلعی انتظامیہ کو بھی پارٹنر بنا رہے ہیں اور تینوں ادارے ملکر اس کو کامیاب بنائیں گے۔
پروپوزل کے تحت ڈبلیو ایس ایس پی کا کام صرف اتنا ہوگا کہ ان ٹرانسفر سٹیشنز پر پلاسٹک ویسٹ کو منتقل کریں گے جہاں پر محکمہ سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے پلانٹس لگے ہوں گے۔ سعد کے مطابق یہ منصوبہ ڈبلیو ایس ایس پی کے اخراجات میں بھی کمی کا باعث بنے گا کیونکہ موجودہ وقت میں وہ پشاور شہر کی ویسٹ شمشتو علاقے میں حالیہ بنائے گئے ڈمپنگ سائٹ لے جاتے ہیں جو کہ 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جب شہر کے اندر ہی ان سے یہ کچرا لیا جائے گا تو ان کی منتقلی کے اخراجات کم ہوں گے۔
سعد کا کہنا ہے کہ پشاور میں روزانہ 200 ٹن تک پلاسٹک کچرہ پیدا ہوتا ہے جن میں انہیں صرف 20 ٹن تک چاہئے ہوگا اور اس سے پیدا ہونے والی گیس نہ صرف شہر کے تمام ہوٹلز کے لئے کافی ہوگی بلکہ شہر کے ان گھرانوں کو بھی یہ سہولت دی جاسکتی جہاں سوئی گیس کے کنکشنز نہیں لگے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پشاور شہر کے تمام بڑے ہوٹلز ایل پی جی استمال کرتی ہے اور اگر انہیں یہ ایل پی جی تھوڑی سستی ریٹ پر دی جائے تو نہ صرف حکومت کو فائدہ ہوگا بلکہ ہوٹلز مالکان کو بھی مالی فائدہ پہنچ جائے گا۔
منصوبے میں نقص
سعد کا کہنا ہے منصوبے میں صرف یہ خامی ہے کہ یہاں پلاسٹک کچرے کا معیار زیادہ اچھا نہیں ہے۔ پلاسٹک کے ساتھ دیگر گند بھی مکس ہوتا ہے جس کی صفائی ایک چیلنج ہے۔ ہم جب چھوٹی سطح پر پلاسٹک کو گیس میں تبدیل کر رہے تھے تو 80 فیصد توانائی حاصل ہوتی تھی، مطلب 100 کلو کچرے سے 80 کلو گیس پروڈیوس ہوتی تھی لیکن جیسے ہی ہم نے مقدار بڑھا دیا تو پروڈکشن 60 فیصد تک گر گیا جس کی بڑی وجہ کچرے کا غیر معیاری ہونا ہے۔