خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزم

درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کا کاروبار ماند پڑنے لگا

 

سٹیزن جرنلسٹ شاہ زیب خان

‘ہمارے کارخانے میں پہلے تقریبآ 50 تک مزدور کام کررہے تھے لیکن اب صرف 10 مزدور کام کررہے ہیں کیونکہ اب ہمارا کاروبار ویسا نہیں رہا جیسا کہ پہلے تھا۔’
یہ خیالات سابقہ ایف آر کوہاٹ کے علاقے درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے مشتاق آفریدی کے ہیں جو پچھلے 20 سال سے اسلحہ سازی کا کام کرتا ہے، مشتاق آفریدی ایک کارخانہ چلاتا ہے جو انکے آباو اجداد کے وقتوں کا ہے۔
پہلے کاروبار بہت اچھا تھا اور مختلف شہروں سے لوگ یہاں اکر کام کرتے تھے فاٹا انضمام کے بعد ہمارے کاروبار پر بہت اثر پڑا ہوا ہے اس سے پہلے سے پہلے درہ آدم خیل میں تقریبآ 18000 تک مزدور اسلحہ بنانے کا کام کررہے تھے جب سے فاٹا ضم ہوا ہے اس دن سے کاروبار پر بہت اثر پڑا ہوا ہے اور اب تقریبآ 1500 تک لوگ کام کررہے ہیں اور ان کا بھی مشکل سے گھر کا چولہا جل رہا ہے’ مشتاق آفریدی نے بتایا۔
مشتاق آفریدی کا کہنا ہے 2004 کا جو اپریشن سے پہلےدرہ میں تقریبآ 7000 تا 8000 تک اسلحے کی دوکانیں تھی اب تقریبآ 1100 رہ گئی ہیں، کاروبار ماند پڑگیا ہے جس کی وجہ سے اسلحہ کا کاروبار کرنے والے معاشی مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب حکومت نے لائسنس اور پرمٹس پر پابندی رائد کی ہے جس کی وجہ سے یہاں درہ آدم خیل میں سینکڑوں لوگوں نے اس کاروبار کو یا تو خیرباد کہہ دیا ہے یا پھر وہ پشاور انڈسٹریل سٹیٹ چلے گئے ہیں کیونکہ وہاں اسلحے کا کاروبار اچھا ہے۔
درہ آدم خیل سابقہ فاٹآ کا واحد اسلحہ سازی کا بازار ہے جہاں ہزاروں مزدور کام اور مختلف طرح اسلحہ سازی بنانے کا کام کرتے ہیں، درہ آدم خیل بازار تقریبآ 75 سال پرانا بازار ہے کافی لوگ اس ہنر سے وابستہ تھے۔ مختلف ضلعوں سے لوگ یہاں اکر مزدوری کرتے تھے اور اپنی زہانت کا استعمال کرکے مختلف طرح اسلحہ بناتے تھے لیکن اب یہ کاروبار ماند پڑرہا ہے۔
راج والی پچھلے 25 سال سے اسلحہ سازی کا کام کر رہا ہے انہوں نے بتایا کہ وہ مختلف قسم کے بندوق بناسکتا ہے لیکن پہلے جس طرح یہاں چہل پہل ہوتی تھی اور کاروبار اچھا ہوتا تھا اب ویسا نہیں رہا۔ ‘ اس کارخانے میں ہم اب 6 ادمی کام کررہے ہیں پہلے اس کارخانے میں ہم 20 تک مزدور کام کررہے تھے درہ آدم خیل میں اسلحہ سازی کے لیے کوئی بھی جدید مشینری دستیاب نہیں بلکہ یہاں عام اور پرانی مشینری استعمال کی جاتی ہے’ انہوں نے بتایا۔
انہوں نے بتایا کہ درہ میں اعلیٰ کوالٹی کا اسلحہ بہت کم پیسوں میں تیارکیا جاتا ہے لیکن حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے اب لوگوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔
‘یہ درہ ہمارا اپنا علاقہ ہے پچھلے 30 سال سے اسلحہ فروخت کرنے کا کام کرتا ہوں لیکن اب اس کام میں وہ بات نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی’ حضرت عمر نے کہا۔
اس کا مزید کہنا تھا کہ ان کو اس بات پر فخر ہے کہ درہ آدم خیل بازار میں قابل اسلحہ ساز موجود ہیں جو 4 لاکھ کی بندوق ایک لاکھ پچاس ہزار تک بنا سکتے ہیں، یہاں نہ ہمارے پاس وہ جدید ٹیکنالوجی ہے اور نہ ہی کوئی جدید آلات لیکن پھر بھی درہ آدم خیل کے اسلحہ ساز کسی سے کم نہیں ہے۔ وہ ایسا بندوق تیار کرتے ہیں کہ لوگ دیکھ کردنگ رہ جاتے ہیں حکومت پاکستان کو چاہئے درہ آدم خیل کی اسلحہ سازوں کے ساتھ تعاؤن کرے تاکہ یہ صنعت ایک بار پھرترقی کرسکے۔
واضح رہے حکومت خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور اور درم آدم خیل میں تیار ہونے والے اسلحہ کے کاروبار کو فروغ اور اسے قانونی شکل دینے کے لیے صنعتی زون بنارہی ہے۔ مذکورہ علاقوں میں قریباً 3 سو اسلحہ فیکٹریاں ہیں جن میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں۔ آرمز زون بننے کے بعد یہ تمام فیکٹریاں ایک ہی جگہ منتقل ہوں گی اور اسلحہ خریدنے والے ممالک کو بہت سی آسانیاں ایک چھت تلے فراہم کی جاسکیں گی۔ وفاقی حکومت اس مہارت سے بننے والے اسلحہ کی دنیا بھر میں پہچان بنانے کے لیے پشاور کے نواحی علاقے متنی، درہ آدم خیل اور سابقہ خیبر ایجنسی اور موجودہ ضلع خیبر کے سنگم پر جدید طرز کا صنعتی زون بنارہی ہے ،اسلحہ ساز صنعتی زون میں 200 یونٹس بنیں گےجس کی لاگت 3 سے 4 ارب روپے ہے۔
لیکن درہ آسلحہ ساز کا کہنا ہے کہ ہم سالوں سے کاروبار کررہے ہیں ہمارے ہاں فیکٹریز بھی ہیں فیکٹری کا لائسنس بھی ہے پھر کیوں حکومت ہم سے مطالبہ کررہی ہے کہ ہم اپ کے لیے فیکٹری بنائے گے اپ لوگوں کو لائسنس بنا کر دینگے۔ ہم یہ ہنر چھوڑنا نہیں چاہتے ہم اپنا اسلحہ بازار کو چھوڑنا نہیں چاہتے ہم جیسے بھی ہے اس بازار میں ہم ایسے ہی ٹھیک ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button