‘پورے سال کا کورس کم وقت میں پڑھانا اساتذہ کے لئے درد سر’
سلمہ جہانگیر
پوری دنیا میں کورونا کے آنے کے بعد سب سے زیادہ اگر کوئی طبقہ خوش لگ رہا تھا اور سکون میں تھا وہ تھے طلبہ اوربہت ساری جگہوں پر انہیں پڑھانے والا تدریسی عملہ،تاہم آخر بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی آخرکار سکولوں اورکالجوں نے کھلنا ہی تھا اور یہ کھول دیے گئے تاہم ان اداروں کے کھلتے دروازوں سے اندر داخل ہونے والے ہر استاد کو اب ایک ہی فکر لاحق ہے کہ سات ماہ سے تعلیم سے دور رہنے والے ان طلبہ کو واپس کیسے پرانے ٹریک پر لاکر انہیں پڑھایا جائے۔
رواں سال کے مارچ میں اب جبکہ طلبہ پرچوں کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک ان کو نوید ملی کہ جو وبا بلا کی صورت میں لوگوں کی جان لینے آرہی ہے وہ تو ان کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں نہ صرف سکولز لامحدود مدت کے لئے بند ہوگئے تھے بلکہ کچھ ہی دنوں بعد اچانک ان کو ایک ایسی خوشخبری ملی جس کی شاید ان کے باپ دادا تک کی نسلوں میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا اوروہ تھا بن پڑھے اوربن امتحان دیے پاس ہونے کا،،،،،، یہ طلبہ نہ امتحانوں میں بیٹھے نہ ہی انہیں پرچوں کے لئے رات رات بھر جاگنا پڑا اوراس کے باوجود بھی وہ اگلی کلاسوں میں پروموٹ بھی ہوگئے۔
خیبرپختونخوا میں تعلیم کے محکمے کے اعداد و شمار کے مطابق کل 33 ہزار 2 سو63 سکول ہیں جو کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد مکمل طورپر بند تھے۔ جبکہ 2 سو 63 کالج ہیں جن میں 5 ہزار3 سو 16 طلبہ اور 3 ہزار 2 سو 80 طالبات زیرتعلیم تھے۔
پشاور مرشد آباد کی رہنے والی ملائکہ جو چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی جب کورونا کی وبا پھیلی، پھر دیگر طلبہ کی طرح اس کے بھی وارے نیارے ہوگئے سکول بند ہوگئے گھروں سے نکلنے کی اور کہیں جانے کی اجازت نہیں تھی بس عیاشی ہی عیاشی تھی گھر میں ٹی وی دیکھنے،لیپ ٹاپ اورموبائل فون پر کھیلنے کی مکمل آزادی تھی اسے تو یقین بھی نہیں تھا کہ کبھی سکول دوبارہ بھی کھلیں گے اس دوران اسے ساتویں جماعت میں بغیر امتحان کے بھیج دیا گیا۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ اچانک آہستہ آہستہ یہ خواب بکھرنے شروع ہوئے اورانہیں بتایا گیا کہ کورونا کی وبا کم ہورہی ہے اورسکول جلد ہی کھلنے والےہیں۔ اب اس کا سکول کھل چکا ہے وہ سکول تو آچکی ہے لیکن اس دوران اس کی ساتویں جماعت کی کتابیں پڑھنے کے لئے درکار وقت کے کئی ماہ گھر پر کھیلتے ہی گذر چکے ہیں اورنہ صرف وہ بلکہ اس کے اساتذہ تک پریشان ہیں کہ اب کیا ہوگا۔
دوسری جانب حکومت نے مرحلہ وار سکول اورکالج کھول دیے ہیں اساتذہ کو بھی آکر اپنے ڈیسکوں اورالماریوں سے دھول ہٹانی پڑی ہے اوراب انہیں ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ ان بچوں کو پڑھائیں جن کو پڑھنے کی عادت نہیں رہی پورے سال کا کورس پڑھانے کے لئے انکے پاس صرف سات ماہ کا وقت ہے اور وہ پریشان ہیں کہ یہ کیسے ہوگا لیکن بھلا ہو حکومت کا جس نے ان اساتذہ کا کام آسان کرکے انہیں منتخب کورس پڑھانے کی اجازت دی ہے کہ اب پورا کورس پڑھنے کا وقت نہیں رہا۔
خیبر پختونخوا کے تعلیم کے محکمے نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کورس تمام تعلیمی اداروں کو بھیج دیا ہے ،جس میں پورے سال کے کورس سے خاص خاص مضامین چن کر پڑھانے کی ہدایات کی گئ ہے۔
تعلیم کے محکمے کی جانب تو کورس تقسیم ہوچکا ہے لیکن پھر بھی کچھ اساتذہ اس فیصلے سے پریشان دکھائی دیتے ہیں ان میں سے ایک پرائیویٹ سکول کی استانی عائشہ جو اردو پڑھائی ہیں کا کہنا تھا کہ وقت کی کمی کے باعث مکمل کورس تو ایک طرف منتخب کورس پڑھانا بھی مشکل ہے. کیونکہ ان بچوں کو یہ کورس پڑھانا ہی نہیں بلکہ انکو ذہن نشین بھی کرانا ہے. وہ کہتی ہیں کہ اس وباء کے پیش نظر کورس میں سے منتخب اسباق لیے گئے ہیں. تاکہ بچوں کو اچھے طریقے سے پڑھا کر انکو سمجھایاجا سکے لیکن تمام بچوں کی ذہنی سطح ایک طرح نہیں ہوتی اس لیے سب کو ایک ترازو میں نہیں تول سکتے .سب کو ان کے ذہننی لیول کے مطابق سمجھایا جاتا ہے اس لیےایسا کرنے کے لیے وقت کی ضرورت ہوتی ہیں. جو کہ ہمارے پاس کم ہے.
کورس کے معاملے پر پشاور کے ایک نجی سکول میں پڑھانے والے محمد سہیل کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے بچوں کے تعلیم کا زیادہ وقت ضائع ہو چکا ہے اور بچے اب دوبارہ سے اگر اسی طریقے کار پر چلیں گے تو اس میں بھی بہت وقت لگے گا، گورنمنٹ کی جانب سے جو سلیبس دیا گیا ہے نہم دہم کے لیے وہ سلیکٹیڈ کورس ہیں. اب اس کے مطابق پڑھایا جائے گا. اس میں کچھ کورس کی کمی کی گئی ہے اسی کے مطابق کام شروع ہو جائے گا۔.
اس طرح کا معاملہ چھوٹی کلاسز کا بھی ہے،
سحر ناز جو کہ ایک گورنمنٹ ہائی سکول پشاور میں نہم دہم کو فزکس پڑھاتی ہے کا کہنا ہے کہ اب لاک ڈاون کے بعد جو بچے سکول آ رہے ہیں. تو پڑھائی کے لحاظ سے کافی کمزورہوگئے ہیں چونکہ میں سٹپ وائز کرواتی ہوں تو بہت مشکل کام ہیں.اب وقت کی کمی ہے اور جو کورس یا سیلیبس حکومت ک جانب سے انکو ملا ہے ،کم وقت میں اسکا مکمل کروانا کٹھن کام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام مضامین میں مشقوں کو چن لیا گیا ہے پھراگر 10 سوالات ہیں تو ان میں سے 5 کا پڑھانے اور کرانے کے لئے ہدایت کی گئ ہے۔.
پشاور شہر کی سعدیہ جو ایک گھریلوں خاتون ہے اپنے بچوں کے بارے میں کہتی ہیں. کہ لاک ڈاون میں بچوں کا بہت سارا وقت ضائع ہوچکا ہے ہم خود اگر انہیں پڑھاتے بھی تھے تو چونکہ سکول میں کام کے چیک ہونے کا انہیں کوئی خوف نہیں تھا اس لئے وہ پوری طرح لاپرواہ ہوچکے ہیں لیکن ہم پھر بھی خوش ہیں کہ سکول دوبارہ کھل گئے ہیں اب بچے واپس اپنی پرانی ڈگر پر آکر سنجیدہ طریقے سے پڑھیں گے یوں تو بچوں پر پڑھائی کا بوجھ زیادہ ہوگا. لیکن انشاءاللہ ہم سب مل کر جلد ہی ان حالات پر قابوپا لیں گے. جہاں تک کورس یا سلیبس کا تعلق ہے تو تعلیم کے محکمے نے جو فیصلہ کیا ہے تمام سکول وکالجوں کو اس پر عمل کرنا چاہئے تاکہ وقت پر مکمل ہوں۔
قمر دین گڑھی گاوں سے تعلق رکھنے والی خدیجہ نے اپنے بچوں کے حوالے سے کہتی ہے کہ میرے دو بچے ہیں. ایک کلاس دوئم میں پڑھتی ہے. اور ایک بیٹا ہےجو کہ کے. جی کا طالب علم ہے. وہ کہتی ہیں کہ کرونا کے دنوں میں ان کے بچوں نے ٹیوشن میں بھی اتنا نہیں پڑھا جتنا وہ سکول میں پڑھتے تھے.کیونکہ ٹیوشن بھی ایک یا زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کی ہوتی تھی۔ لیکن اب اگر والدین اور اساتذہ مل کر بچوں پر توجہ دیں تو جو سلیکٹیڈ کورس ہے وہ مکمل ہوجائے۔