توہین رسالت کے ملزم کو عدالت کے اندر قتل کرنے کا منصوبہ کس طرح بنایا گیا؟
محمد طیب
عدالت کے اندر توہین رسالت کیس میں نامزد ملزم کو قتل کرنے والے فیصل خالد کیس میں گرفتار ماسٹر مائنڈ کا اعترافی بیان سامنے آ گیا ہے جس میں انہوں نے فیصل اور وکیل طفیل ضیاء کے ساتھ قتل کی منصوبہ بندی کرنے اور ملزمان کو پستول فراہم کرنے کا اعتراف کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق فیصل خالد کیس میں گرفتار تیسرے ملزم وسیع اللہ ساکن بنارس آباد سفید ڈھیری پشاور نے گزشتہ روز جوڈیشل مجسٹریٹ نورالحق پشاور کی عدالت میں اعترافی بیان قلمبند کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے عدالت اندر توہین رسالت کیس میں نامزد ملزم قادیانی طاہر احمد نسیم کو قتل کرنے کا منصوبہ گرفتار جونیئر وکیل طفیل ضیاء کے خیبر بازار میں واقع دفتر میں قتل سے ایک ماہ پہلے بنایا تھا۔
اس بارے مزید پڑھیں:
”گستاخِ رسول کی سزا صرف موت ہے”
خالد کو پستول دینے والے وکیل کو جیل بھیج دیا گیا
توہین رسالت کے ملزم کو قتل کرنے والا خالد جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
بیان میں وہ مزید لکھتا ہے کہ ایک کاریگر سے 17000 روپے پر نائن ایم ایم پستول بنوایا اور اس کو 16جولائی کی پیشی سے ایک دن قبل وکیل طفیل ضیاء کو دیا لیکن سخت سیکیورٹی انتظامات کی وجہ سے فیصل 16جولائی کو ناکام رہا جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 29 جولائی کو رکھ دی جس کے بعد دوبارہ منصوبہ بنایا گیا اور وہی لوڈ شدہ پستول تہکال میں ایک نجی سکول میں طفیل ضیاء کے حوالہ کر دی جس کو بعد میں طفیل ضیاء نے 29 جولائی کو نیو جوڈیشل کمپلیکس کے پہلی منزل پر واقع واش رومز میں ساتھی مرکزی ملزم فیصل عرف خالد کو دی اور پھر اُسی دن فیصل نے جیل سے لانے والے توہین رسالت کیس میں نامزد ملزم قادیانی طاہر احمد نسیم کو عدالت کے اندر قتل کردیا۔
واضح رہے فیصل عرف خالد نے 29 جولائی کو توہین رسالت کیس میں نامزد ملزم قادیانی طاہر احمد نسیم کو ایڈیشل اینڈ سیشن جج کی عدالت کے اندر قتل کر دیا تھا جس کے بعد پولیس نے ملزم کو پستول سمیت گرفتار کیا اور تفتیش کے دوران پولیس نے پستول لانے والے جونئیر وکیل طفیل ضیاء کو گرفتار کر لیا۔
دونوں کی گرفتاری کے بعد مزید تفتیش کے دوران پولیس نے تیسرے سہلوت کار اور منصوبہ ساز ملزم وسیع اللہ کو گرفتار کیا تاہم طفیل ضیاء نے علاقہ مجسٹریٹ کے ساتھ جرم ماننے سے انکار کر دیا ہے لیکن تیسرے ملزم نے علاقہ مجسٹریٹ کے ساتھ جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔