خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزم

بی آرٹی کے اصل متاثرین کون ہیں؟

 

سٹیزن جرنلسٹ شاہ زیب 

پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آرٹی) منصوبے کی وجہ سے جہاں لاکھوں افراد کو سفری سہولیات میسر ہوئی وہیں اس سروس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روز گار ہوگئے ہیں جن میں پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور اور کنڈیکٹرز سرفہرست ہیں۔ بی آرٹی منصوبے پر کام شروع کرتے وقت حکومت نے مزدا اور بس ڈرائیورز کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز کو بی آرٹی میں نوکریاں دی جائے گی تاہم وہ اس سے محروم رہیں۔
کمبوہ بس اڈہ کے منیجر امام جان آڈہ کا کہنا ہے کہ ہم اس اڈے کو کئی سالوں سے چلا رہے ہیں، پشاور میں جو لوگ مزدے چلاتے ہیں اس سے نہ صرف ان کا رزق جڑا ہوتا ہے بلکہ ڈرائیور، کنڈیکٹر، مالک، مستری،سپرپاٹ والے، اور ہوٹل والے کا بھی گزر بسرہوتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ بی آر ٹی کی وجہ سے سینکڑوں خاندان بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ‘کسی کی 20 لاکھ روپے کی گاڑی کھڑی ہے تو کسی کی 30 لاکھ کی، بی آرٹی نے سینکڑوں خاندانوں سے ان کا روزگارچھین لیا ہے’
انہوں نے کہا کہ کہ پشاور میں تقریبآ 500 تک مزدے ، 300 ویگن اور 150 تک بسیں ہیں۔ کمبوہ اڈے سے پہلے تقریبآ تین سو گاڑیاں نکلتی تھی اب بمشکل تیس گاڑیاں نکلتی ہے جو مشکل سے اپنی سی این جی کے پیسے کماتے ہیں، اس صورت حال میں ڈرائیور، کنڈیکٹر مستری اور اڈے میں ہوٹل والا اپنے گھر کیا لے کرجائے گا، حکومت نے نے بی آر ٹی چند آدمیوں کی خوشی کیلئے شروع کی مگر لاکھوں لوگوں کو بے روزگارکیا۔

یاد رہے کہ  13 اگست 2020 کو وزیراعظم عمران خان نے بی آرٹی کا افتتاح کیا تھا جس کے بعد کافی تعداد میں لوگوں نے اس میں سفر کرنا شروع کیا تھا لیکن بی آرٹی بسوں میں آگ لگنے کے واقعات کے بعد 16 ستمبر کو حکومت نے بسوں کو عارض طور پرمعطل کیا ہے جو تاحال معطل ہے۔ بی آرٹی معطل ہونے کے بعد مزدہ اور بس ڈرائیورز کا کاروبار ایک بار پھر چل پڑا ہے تاہم یہ عارضی ہے۔
امام جان کا کہنا ہے کہ بی آر ٹی والوں نے جتنے بھی وعدے کئے تھے کہ ہم اپ لوگوں کو نوکری دینگے اپ لوگ بےروزگار نہیں ہونگے۔ ہمیں بی آر ٹی والے یہ بتائے کہ ان مزدے والوں سے انہوں نے کتنے ڈرائیور اور کتنے کنڈیکٹر لیے ہیں؟
صفت اللہ بس ڈرایئور کا کہنا ہے کہ حکومت نے ہم سے وعدے کئے تھے کہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے گھر سے ہم ایک آدمی کو بی آر ٹی میں نوکری دینگے لیکن کسی کو بھی نوکری نہ ملی۔ انہوں نے کہا کہ وہ وعدہ تو الگ اب کہتے ہیں کہ آپ ہمیں پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے دے تب آپ کو نوکری دیں گے، ہم اس نوکری کے لئے کہیں نہ کہیں سے پیسوں کا بندوبست کربھی لے مگر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ہماری نوکری برقرار رہے گی، ہم کافی مشکلات کا شکار ہے، اس صورت حال میں ہم اپنے گھر کا خرچہ کیسے برداشت کرینگے اوپر سے مہنگائی کافی ہوگئی ہے جس چیز کو دیکھے اس کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔
صفت اللہ کے مطابق ان کو ڈرائیونگ کے علاوہ کوئی اور کام بھی نہیں آتا جس کو کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ اوپر سے ٹریفک والے پرچہ تھمادیتے ہیں جس کے بعد ہم سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ سی این جی ڈالیں یا بچوں کے لیے کچھ لے کر جائے۔
امام جان کا کہنا ہے حکومت کو چاہئے کہ ہمیں ہمارا حق دیا جائے یہ تو ایسی حکومت ہے کہ ہم سے ہمارا روزگار بھی چھین رہی ہے یہ کہاں کا انصاف ہے لاکھوں خاندانوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے۔

امام جان نے کہا کہ انہوں نے اپنے حق کے لیے کئی احتجاج بھی کئے جس کے دوران ٹرانس پشاور کے حکام نے ہمیں بتایا کہ اپ لوگوں کو ہم بی ار ٹی میں نوکری دینگے اور پیسے بھی مگر ابھی تک ہمیں نہ نوکری ملی اور نہ ہی پیسے ہم ان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم سے کئے ہوئے وعدے پورے کرے مگر ابھی تک ہمارا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا جاسکا۔
شہاب ایس ایس پی ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ تقریبآ ایک سال پہلے سروے کی گئی تھی جس میں پشاور سٹی کو ایک ہی دن میں تقریبآ 8 لاکھ تک گاڑیاں کا ان آوٹ ہوتی ہیں اس میں ہر قسم کی گاڑیاں آتی جاتی ہے
دوسری جانب ٹرانس پشاور کے ترجمان عمیرخان کا کہنا ہے ان بسیوں اور ویگنیوں کے مالکان کو ان کے گاڑیوں کا کیش معاوضہ دیا جائے گا جو ان کے ساتھ ہم نے طے کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانس پشاور کا کسی قسم کا ایسا ارادہ نہیں ہے کہ ہم ان کو مزدے والوں اور بس ڈرائیورز کو بے روزگار کرے جبکہ ان ڈرائیوز کو نوکری دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ گاڑیوں اور اس کے کاغذات کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد ان ڈرائیورز کو نوکری دی جائے گی۔ انہوں نے بی آر ٹی میں نوکریوں کی خرید و فروخت کے الزام کی بھی سختی سے تردید کی اور کہا کہ اب تک جتنی بھی بھرتیاں ہوئی ہیں باقاعدہ قانونی طریقہ کار کے تحت کی گئی ہیں۔

کامران جو کمبو آڈہ میں بڑے گاڑیوں کا ٹائر بدلنے اور پنچر لگانے کا کام کرتا ہے نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا ‘ میں یہاں تقریبا 25سال سے کام کر رہا ہوں میں جب جوان تھا اپنے بابا کے ساتھ آتا تھا اور کام سیکھ رہا تھا میری جوانی میں ایسا وقت نہیں ایا تھا اب بہت مشکل سے گھر کا چولہا جلتا ہے پہلے میں تقریبآ 2000 ہزار روپے گھر  لےجاتا تھا اب ایسا وقت ایا ہے کہ مشکل سے گھر  300 روپے لے جاتا ہوں ان پیسوں میں ہم گھر کا خرچہ تک نہیں اٹھا سکتے سکول کی فیس اور ڈاکٹر کا خرچہ کیسے برداشت کریں؟
امین خان کا کہنا ہے کہ وہ دو سال سے ویگن کا کنڈیکٹر ہے پہلے تو زیادہ سواریا ہوتی تھی ان کا ویگن بہت سواریوں سے بھرا ہوتا تھا اب بی آر ٹی شروع ہونے کی وجہ سے انکی سواری بہت کم ہوئی ہے اور انکی کمائی میں خاطرخواہ کمی آئی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button