خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

کورونا وائرس نے چترال میں شہد کے کاروبار کو کیسے متاثر کیا؟

 

گل حماد فاروقی

شہد نہ صرف توانائی سے بھر پور غذا ہے بلکہ اس میں مختلف بیماریوں کیلئے شفاء بھی ہے۔ یہ شہد محتلف مراحل سے گزر  شہد کی مکھیوں کے ذریعے کر تیار ہوتا ہے۔شہد جنگل میں بھی قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں مگر آج کل اسے فارم کے اندر مکھیوں کے ذریعے تیار کروایاجاتا ہے۔

لکڑی سے بنے ہوئے صندوق نما پیٹیوں میں ان شہد کی مکھیوں کو پالا جاتا ہے اور یہ پیٹیاں ایسی جگہ رکھی جاتی ہیں جہاں آس پاس درخت اور پودوں میں پھول موجود ہو کیونکہ یہ شہد کی مکھیاں ان پھولوں کا رس چوس کر پیتی ہیں اور اس سے شہد بنتا ہے۔
ایک ماہ بعد ان چھجوں کو پیٹیوں سے نکال کر ایک خاص مشین میں ڈالتے ہیں اور اسے تیزی سے گما کر ہوا کے دباؤ کی مدد سے اس سے شہد نکالا جاتا ہے جو ایک ٹپکہ میں بھر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کو مختلف برتنوں میں پیک کرکے بیچ دیا جاتا ہے۔
کورونا وائرس کی وباء پھیلنے سے جہاں دیگر کاروبار متاثر ہوئے وہاں اس سے شہد کی صعنت کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ چترال کے بالائی علاقے میں ایک قدرتی جنگل کے قریب رکھے ہوئے شہد کی مکھیوں کا رکھوالے رسول خان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے چالیس سالوں سے یہ کاروبار کررہا ہے اور ہر سال شبقدر ضلع چارسدہ سے یہ مکھیاں چترال لاکر پالتا ہے مگر اس سال بری طرح متاثر ہوا۔ لاک ڈون کی وجہ سے وہ ان مکھیوں کو کہیں پھولوں کے قریب نہیں لے جاسکے جہاں ان کو خوراک ملتا ہے اور ان کو گھر پر رکھ کر جیب سے خوراک دینا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا سے متاثرین لوگوں کیلئے امداد تو آیا مگر شہد کے کاروبار کرنے والے لوگوں کو کچھ بھی نہں ملا۔ رسول خان نے انکشاف کیا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ان کو پچاس لاکھ روپے کا نقصان کا سامنا ہوا اور دوسری جانب پولیس بھی ان کو تنگ کررہی ہے۔
رسول خان نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ساتھ مالی طور پر مدد کی جائے یا ان
کو بلا سود قرضہ دیا جائے تاکہ وہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکے کیونکہ موسم حزاں اور سردیوں میں جب درختوں کے پتے جڑ جاتے ہیں تو وہ ان مکھیوں کو گھر میں رکھ کر ان کو لاکھوں روپے کا چینی کھلاتا ہے تاکہ یہ مکھیاں کہیں اور نہ جائے اور صرف چند ماہ ان کا سیزن ہوتا ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button