سوات کی تبسم عدنان ہی کیوں بین الاقوامی ایوارڈ کے لئے نامزد ہوئی؟
خالدہ نیاز
سوات کی خاتون سوشل ورکر تبسم عدنان کو ویمن بلڈنگ پیس ایوارڈ کے لیے نامزد کردیا گیا ہے۔ ویمن بلڈنگ پیس ایوارڈ ان خواتین کو دیا جاتا ہے جو امن کے حصول میں نازک یا تنازعات سے متاثرہ ممالک میں کام کر رہی ہیں۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس 15 ستمبر کو ایک ورچوئل تقریب کے دوران 10،000 ڈالر کے پہلے وصول کنندہ کا اعلان کرے گی۔
دلچسپ طور پر تبسم عدنان نے خود اس ایوارڈ کے لیے اپلائی نہیں کیا تھا بلکہ کسی اور نے ان کا نام بھیجا تھا، اس دفعہ اس ایوارڈ کے لیے51 ممالک سے 150 درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں سے 10 خواتین کو نامزد کیا گیا ہے جن میں پاکستان سے ایک تبسم عدنان اور دوسری آسیہ جمیل شامل ہیں۔
سوات سے تعلق رکھنے والی تبسم عدنان 2010 سے انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کررہی ہیں اوران کو پاکستان کی پہلی خواتین جرگے کی بانی کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کو اپنے اس کام کی بنا پر نیلسن منڈیلا اور انٹرنیشنل ویمن آف کرج سمیت کئی ایک ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے، اس کے علاوہ ان کو امریکا کی اعزازی شہریت بھی حاصل ہےجبکہ امریکا کے شہرفلوریڈا میں کمیونٹی ممبر بھی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران تبسم عدنان نے بتایا کہ انہوں نے انسانی سمگلنگ، سورہ، کم عمری کی شادی اور جائیداد میں خواتین کے حصے پر بہت کام کیا ہے اور ابھی ان کا ارادہ ہے کہ بچے جو آئس اور باقی منشیات کے عادی ہورہے ہیں اس پر کام کریں تاکہ بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے اور ان کو اس طرف جانے سے روکا جائے۔
‘ میں جب اپنے علاقے میں خواتین کے ساتھ بیٹھی ان کے مسائل سنے تو مجھے لگا کہ انکے ساتھ ناانصافی ہورہی ہیں اور جرگے میں انکی نمائندگی ضروری ہے کیونکہ جرگے میں صرف مرد ہوا کرتے تھے اور خواتین کے مسائل حل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور ویسے بھی خواتین کے مسائل ایک خاتون زیادہ بہتر طریقے سے سن اور سمجھ سکتی ہیں، میں نے بہت کوششوں کے بعد مردوں کے جرگے میں بیٹھ کرخواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہیں’ تبسم عدنان نے کہا۔
تبسم عدنان پشتون تاریخ کی وہ پہلی خاتون ہیں جنھیں مردوں کے جرگے کی جانب سے اس وقت پہلی بار دعوت دی گئی جب انہوں نے ایک بچے کو جنسی کا نشانہ بنانے کے عمل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔گرینڈ جرگہ اس کیس کی سماعت کر رہا تھا۔
تبسم عدنان کے مطابق ‘ایک مرتبہ ان کے پاس سورہ کا ایک کیس آیا جس میں جرگے کے تمام ممبران کو جیل بھیج دیا گیا پھر ان لوگوں کے گھر والوں نے مجھے کہا کہ ان کو معاف کردے اور جیل سے باہر نکالے تو میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ عدالت میں جائے اگر عدالت ان کو معاف کردیتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن میں معاف نہیں کرتی کیونکہ جرم اس بچی کے والد نے کیا تھا تو سزا بھی اس کو ملنی چاہئے نہ کہ بچی کو اور ایک بات اور اگر کوئی غلطی کرتا بھی ہے تو دیت بھی دے سکتا ہے بچوں پہ کیوں صلح کرواتے ہیں؟ ‘میری اپنی بھی ایک بیٹی ہے تو ایسے واقعات کو دیکھ کر مجھے افسوس ہوتا تھا اس وجہ سے سورہ پہ میں نے بہت کام کیا’
تبسم عدنان کا کہنا ہے کہ شروع میں انہوں نے سات، آٹھ ایسی خواتین کو خویندو جرگے کا حصہ بنایا جو بات کرسکتی تھی اور فیصلے بھی کرسکتی تھی لیکن اب ان کے ساتھ کافی خواتین ہوتی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی تک انہوں نے 2 ہزار تک مسائل حل کئے ہیں جبکہ کچھ پہ کام جاری ہے، تبسم عدنان کے مطابق ان میں سے کچھ ایسے مسائل ہے جن کے حل نکل آئے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جن میں فریقین آپس میں راضی ہوجاتے ہیں۔
اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکی پیدائش سوات میں ہوئی ہے تاہم بعد میں اپنے والد کے ساتھ قطر چلی گئیں تھی لیکن شادی کے لیے پھرسوات آگئیں اور گھر اور بچوں میں مصروف ہوگئیں اور اس وقت چاہتے ہوئے بھی ان فلاحی کاموں کو وقت نہ دے سکی۔ انہوں نے کہا کہ پھر کچھ وجوہات کی بناپر انکی شادی بھی قائم نہ رہ سکی اور شوہر سے خلع لینے کے بعد انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے باقاعدہ کام شروع کردیا اور خویندو جرگے کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا جہاں خواتین کے مسائل اور انکے حل پہ بات ہوتی ہے۔ تبسم عدنان کے چار بچے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
شروع میں ان کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس حوالے سے انہوں نے کہا’جب میں نے خواتین کے حقوق کے لیے باقاعدہ کام شروع کیا تو نہ صرف مقامی سطح پر تنقید اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ لاہور کی جامعہ اشرافیہ نے بھی ان کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا کہ یہ صرف فحاشی پھیلا رہی ہے اور خواتین کو ورغلا رہی ہے کہ سب باہر نکلیں اور فحاشی پھیلائے تو میں ان کو کہا کہ آپ پہلے لاہور میں دیکھیں وہاں کیا کچھ ہورہا ہے، میں تو نہ کسی کو کہتی ہوں کہ چادر اتار دو، نہ کسی کو کہتی ہوں کہ چہرہ دکھا دو مجھے صرف خواتین کی آواز چاہئے کہ انکے مسائل حل ہوسکیں اگر کوئی خاتون گھر میں پردے میں بیٹھ کر کوئی کام کرتی ہیں یا اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے’
خویندو جرگے کی بانی نے کہا کہ اب تو مردوں نے بھی اپنے گھریلو مسائل کے حل کے لیے ان کے جرگے میں آنا شروع کردیا ہے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اپنی خواتین کے مسائل خواتین کے سامنے بہتر طور پربتاسکتے ہیں بہ نسبت مردوں کے جرگے میں اور دوسری بات یہ ہے کہ پشتون معاشرے میں کوئی بھی مردوں کے بھرے جرگے میں اپنی بیوی کی باتیں نہیں کرسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ سوات میں تھانے میں ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل کی پہلی خاتون ممبربھی ہے جس کے بعد اب خواتین بہتر طریقے سے اپنے مسائل بیان کرتی ہیں’ ایک مرتبہ ایک بچی آئی جس کا کوئی مسئلہ تھا اور وہ اس کو بیان نہیں کرپارہی تھی پھر میں نے اس سے بات کی تو اس نے مجھے اپنا مسئلہ بتایا جس کے بعد میں نے اس کے مسئلے کے حل کے لیے کام کیا’
خاندان والوں کی سپورٹ کے حوالے سے تبسم عدنان نے کہا کہ ان کو اپنے والد، شوہر اور بیٹے کی مکمل حمایت اور تعاون حاصل رہا ہے جس کی بنا پر انہوں نے اب تک اپنے کام کو جاری رکھا ہوا ہے تاہم کبھی کبھار جب وہ کوئی مسئلہ حل کرتی ہیں تو کچھ لوگوں کی جانب سے ان کو دھمکیاں بھی ملتی ہے۔
سوات میں خواتین کے بڑے بڑے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تبسم عدنان نے بتایا کہ موجودہ وقت میں خلع اور طلاق کا تناسب بڑھا ہے، جسم فروشی زیادہ ہوگئی ہے، معاشی اور جائیداد کے مسائل ہے تاہم سورہ کے مسائل کافی حد تک کم ہوگئے ہیں۔
تبسم عدنان کو ایک گلہ بھی ہے کہ ان کو ہمیشہ حوصلہ افزائی اورپہچان باہر ممالک کے اداروں سے ملتی ہے اپنے ملک کی حکومت انکی اتنی حوصلہ افزائی نہیں کرتی جتنی کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا ان کو سوات میں ڈی پی او کی جانب سے ایک سڑٹیفیکیٹ ملا تھا جس پر وہ بہت زیادہ خوش تھی لیکن حکومت کی جانب سے انکی کچھ خاص حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔