پشاور میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں 3 نوجوان قتل، ورثاء کا احتجاج
پشاور کے مضافاتی علاقہ متنی شریکرہ میں نامعلوم افراد نے فرنٹیر کور(ایف سی) اہلکار سمیت 3نوجوانوں کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا، تینوں نوجوان آپس میں ماموں اور چچازاد بھائی تھے جن کی عمریں 17 سے 24 سال کے درمیان تھی۔
پولیس نے مقتولین کی نعشیں پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردیں اور مقدمہ درج کرکے مختلف زاویوں سے تفتیش کا آغاز کردیا، دوسری جانب ایک ہی گھر سے بیک وقت 3نوجوانوں کے جنازے اٹھنے پر علاقے میں کہرام مچ گیا اور اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ احسان اللہ ولد خیال زادہ ساکن شریکرہ قوم آفریدی نے رپورٹ درج کراتے ہوئے متنی پولیس کو بتایا کہ گزشتہ شب اس کا بیٹا 24سالہ شہزاد احمد جو کہ ایف سی کا اہلکار تھا موٹرسائیکل پر اپنے چچا زاد بھائی فاروق ولد تحسین اللہ (عمر 20سال) اور پھوپھی زاد بھائی عثمان ولد عمران (عمر 17سال) کے ہمراہ سودا سلف خریدنے کیلئے پاسنی بازار گیا تھا تاہم اس دوران تینوں پر فائرنگ کی اطلاع ملنے پر وہ جائے وقوعہ پر پہنچا تو شہزاد احمد زخمی حالت میں جبکہ فاروق اور عثمان مردہ حالت میں پڑے تھے جنہیں ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ شہزاد بھی راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
احسان اللہ کے مطابق ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی یا تنازعہ نہیں ہے تینوں کو نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کیا ہے۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرکے مختلف زاویوں سے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔
متنی میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل 3نوجوان رشتہ داروں کے ورثاء نے نعشیں گلزار چوک میں رکھ کر احتجاجی مظاہرہ کیا اور پولیس کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کیخلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین کا کہنا تھا کہ متعلقہ پولیس سرچ آپریشن کے دوران ان سے اپنی حفاظت کیلئے رکھا گیا اسلحہ اٹھا کر لے جاتے ہیں لیکن اس کے بدلے اُنہیں تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا، انہوں نے کہا کہ متنی ایک حساس ترین علاقہ ہے لیکن یہاں پولیس گشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعد ازاں اسسٹنٹ کمشنر اور ایس پی رورل عبد السلام خالد نے مظاہرین کیساتھ مذاکرات کئے جس کے دوران مظاہرین نے پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کیلئے 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا جبکہ پولیس کی جانب سے ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کی یقین دہانی پر مظاہرین منتشر ہوگئے۔