عامر تہکالی ویڈیو سکینڈل، پشاور پولیس کے خلاف احتجاجی تحریک
پشاور پولیس کی جانب سے شہری عامر تہکالی پر تشدد اور انکی برہنہ ویڈیو بنانے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی ہے۔ جہاں ایک طرف سوشل میڈیا صارفین نے پولیس کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے وہاں دوسری جانب ان کے خلاف پشاور، چارسدہ اور باجوڑ سمیت مختلف شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں پشاور میں پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک نے پشاور پریس کلب کے سامنے مظاہرے میں پولیس رویے اور تشدد کو غیرانسانی اور غیرقانونی قرار دے دیا اور ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر مظاہرین نے کہا کہ کہ عامر نامی نوجوان نے چند روز قبل تہکال پولیس کو بد حواسی کی حالت میں گالم گلوچ دی تھی تاہم بعد میں باقاعدہ طور پر پولیس سے سوشل میڈیا پر کھلے عام معافی مانگ لی لیکن تہکال پولیس نے اس کے باوجود عامر کو حوالات میں بند کرکے اس کو برہنہ کر دیا اور رات بھر تشدد کا نشانہ بناتا رہا جو انتہائی غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک ہے، کسی بھی مہذب ملک کی فورس اس طرح شرمناک عمل نہیں کرتی، حکومت کو چاہیے کہ پولیس کو انسانی حقوق سے متعلق تربیت دے اور اس عمل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو سخت سزائیں دے تاکہ آئندہ کے لئے کوئی اہلکار ایسی حرکت نہ کرے۔
سول سوسائٹی نیٹ ورک کے کوآرڈینیٹر تیمور کمال نے اس موقع پر کہا کہ عامر تہکال پر پولیس تشدد واقعے کے ایف آئی آر میں پولیس نے قانون کے مطابق دفعات درج نہیں کیے جسکا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنے پٹی بند بھائیوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ اس ایف آئی آر میں اختیارات کے ناجائز استعمال کا دفعہ(1) 166پاکستان پینل کوڈ ڈالنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ پولیس سٹیشن کے اندر ہوا ہے اس لیے پولیس ایکٹ 2017 کے مطابق پولیس کسٹڈی میں تشدد کرنا سیکشن 119 کے مطابق جرم ہے جسکی سزا پانچ سال تک قید ہے اور یہ سیکشن ناقابل ضمانت ہے۔
اس کے علاوہ غیر اخلاقی ویڈیو بنانااور شیئر کرنا بھی جرم ہے جو اس ایف آئی آر میں درج نہیں ۔ یہ بات تو بالکل ثابت ہے کہ ویڈیو تشدد کرنے والوں نے ہی بنائی ہے اور اُنہوں وائرل بھی کی ہے۔
دوسری جانب چارسدہ میں بھی اس واقعے کے خلاف اسلامی جمیعت طلباء اور عوامی نیشنل پارٹی کے ورکرز نے مظاہری کیا اور پولیس رویے کے خلاف نعرے لگائے۔
خیال رہے کہ واقعہ میں ملوث ایس ایچ او عمران سمیت تمام اہلکار معطل کیے جاچکے ہیں اور وزیراعلیٰ نے بھی واقعے پر نوٹس لیتے ہوئے ان اہلکاروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی ہدایات جاری کی ہیں۔