پشاور، تاریخی اشیاء سے بنی عمارت ”ویلیج ریسٹورنٹ” تباہی کے دہانے پر
گل حماد فاروقی
ملک بھر سے تاریحی اہمیت کی حامل اشیاء کو یکجا کر کے ایک تاریخی عمارت تعمیر کی گئی تھی جو اب تباہی کے دہانے پر ہے۔ تہکال میں یونیورسٹی روڈ پر ویلیج ریسٹورنٹ کے نام سے ایک نہایت خوبصورت عمارت ہے جس میں لکڑی کا بہت عمدہ کام ہوا ہے۔
یہ عمارت سال 1999 میں شروع کی گئی تھی اور 2005 میں مکمل ہوئی تھی جس پر اس وقت ڈھائی کروڑ روپے کی لاگت آئی تھی۔ یہ عمارت 8 کنال پر محیط ہے جس کے 10 نہایت قیمتی دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ ڈھائی سو سال پرانا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں 20 کھڑکیاں 42 ستون اور ستون کے اوپر شہتیر رکھنے والا سرا بھی نہایت قدیم ثقافت کا مظہر ہے۔
یہ عمارت ایک کرائے کی زمین کے ٹکڑے پر کھڑی کی گئی ہے۔ خالد ایوب، جو ایک نہایت باذوق انسان ہے اور ملک کی ثقافت، تہذیب اور روایت کو زندہ رکھنے کا نہایت شوقین ہے، نے ملک بھر سے قدیم دور کی لکڑی کی بنی ہوئی چیزیں اکٹھی کر کے بڑی مشکل سے یہاں پہنچائیں، سینکڑوں سال پرانی ہونے کے ناطے ان کو پشاور منتقل کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں ایک نہایت پرانی تاریحی عمارت کے دروازے اور کھڑکیاں اس کا مالک بیچنا چاہتا تھا، جب میں نے قیمت پوچھی تو انہوں نے کم دام لگایا مگر میں نے دگنی قیمت ادا کر کے یہ چیزیں حاصل کیں اور اس عمارت میں لگائیں۔
خالد ایوب کا کہنا ہے کہ میرا شوق تھا کہ میں ایک ایسی عمارت تیار کروں جس میں ملک بھر کی تمام ثقافتوں کا نمونہ موجود ہو اور لوگ اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کسی نے دو لفظ شکریہ کے بھی نہیں بولے۔
انہوں نے کہا کہ اس زمین کا مالک کوئی اور ہے میں نے صرف کرائے پر حاصل کی ہے، اب ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ایک طرف بس ریپیڈ ٹرانزٹ یعنی BRT یہاں سے گزر رہی ہے جس نے پشاور کے دیگر کاروباری حضرات کی طرح میرا کاروبار بھی تباہ کیا، سارا ٹریفک یہاں سے دوسری طرف منتقل ہوا اور دوسرا کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون لگا ہے جس سے یہ ریسٹورنٹ بند پڑا ہے اور میں جیب سے تین چار لاکھ روپے اس کا کرایہ، اخراجات، چوکیداروں اور عملے کی تنخواہیں ادا کر رہا ہوں۔
ان کہا مزید کہنا تھا کہ میں اسے چلانا چاہتا تھا مگر اب یہ بند پڑا ہے اور مالک جائیداد کرائے کا تقاضا کر رہے ہیں تو اب میرے پاس اس کے علاو ہ کوئی اور چارہ نہں ہے کہ میں اسے مسمار کروں۔
عارف خلیل جو پاکستانی ثقافت پر گہری نظر رکھتا ہے، کا کہنا ہے کہ یونیسکو جیسے بین الاقوامی اداروں کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس قومی ورثے کا تحفظ کریں۔
خالد ایوب کا مطالبہ ہے کہ سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کے علاوہ اگر اقوام متحدہ کا ادارہ برائے تحفظ ثقافت یونیسکو اسے اپنی تحویل میں لے لے اور اس کے اخراجات برداشت کرے تو میری دلی تمنا پوری ہو جائے گی اور یہ عمارت مسمار ہونے سے بچ سکتی ہے۔
انہوں نے صوبائی حکومت سے بھی اپیل کی کہ محکمہ آثار قدیمہ، سیاحت، ثقافت بھی اس تاریحی ورثے کو بچانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
خالد ایوب کے مطابق اس تاریحی عمارت کا محتلف ممالک کے سفیروں، وزراء، طلباء اور سیاحوں نے دورہ کیا ہے، چین کے سفیر نے جب یہاں آ کر اس عمارت کو دیکھا تو ان کا نعرہ تھا کہ یہ پاک چین دوستی کا مرکز ہو گا، اس عمارت میں لوگ دور دور سے آکر تھوڑی دیر کیلئے سستاتے تھے اور یہاں تصویریں نکال کر چلے جاتے تھے اور ہر کوئی اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ان کو مفت زمین فراہم کرے تو وہ اس قومی ورثے کو یہاں سے بحفاظت نکال کر اس زمین پر ایک تاریحی عمارت تیار کریں گے تاکہ یہ چیزیں ضائع نہ ہوں۔
واضح رہے کہ اس عمارت میں جتنے بھی دروازے لگے ہیں ان پر ہاتھ سے نہایت بہترین کشیدہ کاری کا کام ہوا ہے۔