خیبر پختونخوا

خیبر پختونخوا، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے دو لاکھ ستتر ہزار دو سو چھیاسٹھ افراد خارج

ناہیدجہانگیر

‘صبح سے قطار میں اس امید پر کھڑی رہی کہ آج جو رقم ملے گی پہلے کی طرح اس دفعہ بھی کافی حد تک گھر کی ضروریات پوری ہوں گی لیکن جب باری آئی تو اور جو سنا اس نے میرا حلق خشک کردیا۔’

ضلع نوشہرہ گڑھی مومن کی رخشندہ جو پچھلے دو سال بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقم وصول کرتی رہی، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس کا نام مسحقین کی فہرست سے خارج کردیا گیا ہے کیونکہ حکومت کی نظر میں اب وہ مسحق نہیں رہی۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جولائی سنہ 2008 میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں غریب اور پسماندہ طبقے خصوصاً عورتوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا جس کو مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں بھی جاری رکھا گیا۔
پروگرام میں پہلے مستحقین کو ایک ہزار روپے ماہانہ دیئے جاتے تھے جو کہ بعد میں دو ہزار کردیئے گئے۔

2018 میں حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے کئی بار اس پروگرام میں تبدیلیاں لانے کے ارادے ظاہر کئے اور بالآخر 18 جنوری 2020 کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرمین ثانیہ نشتر نے پروگرام میں بڑے لیول کی کرپشن پکڑنے اور پروگرام میں سے آٹھ لاکھ سے زائد مستحقین نکالنے کا اعلان کیا۔

ثانیہ نشتر نے انکشاف کیا کہ بینیظیر انکم سپورٹ پروگرام میں گریڈ 4 سے گریڈ 21 تک کے ایک لاکھ بیس ہزار سرکاری اہلکار مستحقین کی فہرست میں شامل تھے اور کئی سالوں سے غرباء کی یہ امدادی رقوم وصول کرتے رہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ثانیہ نشر نے تفصیلات عام کرتے ہوئے کہا کہ صرف گریڈ 17 سے 21 تک ڈھائی ہزار سے زائد افسران ایسے تھے جو اپنی بیویوں کے نام پر یہ پیسے وصول کرتے رہے جبکہ گریڈ 4 سے 16 تک کی الگ لسٹ ہے، انہیں فوری طور پر نوکریوں سے برخاست بھی کیا جا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

بی آئی ایس پی، پولیس اہلکاروں کی معطلی اتنی بھی آسان نہیں

خیبر کے بعد لوئر دیر پولیس اہلکاروں کو بھی شوکاز نوٹس

انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین سے اب تک چار لاکھ چالیس ہزار ایک سو چھیانوے روپے ریکور بھی کیے جا چکے ہیں جبکہ مزید ریکوری جاری ہے۔

خیبرپختونخوا میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈائریکٹر جنرل عرفان یوسفزئی کے مطابق صوبے میں کل بارہ لاکھ خاندان اس پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ آڈٹ میں خیبرپختونخوا میں بھی ہزاروں خاندان اس لسٹ سے خارج کئے جا چکے ہیں جن میں پچیس ہزار سرکاری ملازمین بھی شامل تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان ملازمین میں پھر چار سو تین ایسے تھے جو گریڈ 17 یا اس سے اوپر کے افسران تھے۔

اس بہتی گنگا میں سب سے زیادہ ہاتھ صوبہ سندھ کے سرکاری ملازمین نے دھوئے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار ایک سو بارہ ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں سات سو اکتالیس افسران اور پنجاب میں ایک سو سینتیس افسران نے اس پروگرام سے فائدہ اٹھایا ہے۔

ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں بی آئی ایس پی پروگرام میں بے قاعدگیوں میں ملوث سرکاری ملازمین میں گریڈ 17 کے دو سو اٹھاسی، گریڈ 18 کے چورانوے، گریڈ 19 کے انیس اور گریڈ 20 کے دو افسران شامل ہیں۔

دیگر مسحق خواتین کے نام لسٹ سے ہٹانے کے سوال کے جواب میں عرفان یوسفزئی نے کہا کہ دیگر منصوبوں کی طرح اس پروگرام میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ آڈٹ کیا جاتا ہے، جس گھرانے کی مالی حالت بہتر ہوتی ہے اس کو اس پروگرام کے تحت ملنے والی رقم بند کر دی جاتی ہے۔ ڈیٹا نادرہ، امیگریشن اور پی ٹی اے کے ساتھ منسلک ہوتا ہے اور جو بھی مستفید گھرانہ ہے اس میں کوئی اگر موٹر، موٹر سائیکل خرید لے اور اپنے نام رجسٹرڈ کرلے یا حج یا عمرہ پر چلا جائے تو خودبخود وہ ریکارڈ پر آجاتا ہے اور اسے پروگرام سے نکال دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب عام مستحقین کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نکالنے پر اگر ایک طرف مخالف سیاسی پارٹیاں حکومت پر سخت تنقید کر رہی ہیں تو دوسری جانب نچلے درجے پر بھی اس حکومتی اقدام پر نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔
نوشہرہ کی رخشندہ کا نام بھی اسی لئے مستحقین کی فہرست سے نکالا جا چکا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے

عمرہ ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب کا سفر کیا تھا لیکن رخشندہ کے مطابق وہ اب بھی اس پروگرام کے لئے مستحق ہیں کیونکہ عمرہ انہیں کسی اور نے کروایا تھا۔

رخشندہ کے برعکس پشاور کی یاسمین اب بھی اس پروگرام سے امدادی رقم وصول کر رہی ہیں اور اس بار چند دن پہلے جب وہ ریٹیلر سے اپنے پیسے نکلوانے گئی تو ان کی خوشی دوبالا ہوگئی کیونکہ 3 مہینوں بعد انہیں چھ ہزار کی بجائے بارہ ہزار روپے دیئے گئے۔

یاسمین نے کہا کہ ان کا اندراج اس پروگرام میں آٹھ سال پہلے شوہر کی وفات کے بعد کیا گیا تھا اور ابھی مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی خواہش تھی کہ یہ پیسے بڑھا دیئے جائیں جو کہ اب پوری ہونے پر وہ بہت خوش ہیں۔

مستحقین کو بارہ ہزار ملنے کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان اجمل وزیر کا کہنا ہے کہ دراصل یہ کورونا کے پیش نظر لاک ڈاؤن کی وجہ سے وفاقی حکومت نے مستحق خاندانوں کی مالی اعانت شروع کی ہے جسے احساس کفالت پروگرام کا نام دیا گیا ہے۔

اجمل وزیر کے مطابق احساس پروگرام کے تحت وفاق کی جانب سے مستحقین کو فی گھرانہ ماہانہ تین ہزار دیئے جا رہے ہیں اور چار مہینوں کا ایک ساتھ ہی بارہ ہزار ہر مستحق کوملے ہیں، یہ ان تمام مستحقین کو دیئے گئے ہیں جو وفاق کے ساتھ رجسٹرڈ تھے جبکہ آئندہ خیبر پختونخوا کی جانب سے رجسٹرڈ مستحقین کو تین مہینوں کے چھ ہزار الگ دیئے جائیں گے کیونکہ صوبائی سطح پر احساس پروگرام کے تحت فی گھرانے کو دو ہزار ماہانہ ملتا ہے۔

اجمل وزیر نے کہا کہ احساس پروگرام کا کل بجٹ تیرہ ارب ہے اور اس سے بائیس لاکھ گھرانے مستفید ہوں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button