خیبر پختونخوا

مردان کا طالب علم چھا گیا، ہینڈی کیم پر فلمائی گئی فلم نے عالمی مقابلہ جیت لیا

افتخار خان

مردان سے تعلق رکھنے والے طالب علم نے ڈاکومنٹری بنانے (فلم میکنگ) میں چالیس ممالک کے طلبا کو شکست دے کر عالمی فلمی میلہ جیت لیا۔

گرلز ایمپیکٹ کے نام سے یہ عالمی فلم فیسٹیول 2020 امریکہ کے کونیکٹ ھر (ConnectHer) نامی ادارے نے منعقد کیا تھا جس میں خواتین کے حقوق پر بننے والی 200 ڈاکومنٹریز کے درمیان مقابلہ تھا۔

پہلے مرحلے میں تمام ڈاکومنٹریز میں سے 3 نامزدگیاں کی گئی تھیں جن میں پاکستانی طالب علم کا مقابلہ امریکہ اور بنگلہ دیش کے ساتھ تھا۔

فائنل مقابلہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ کے طالبعلم محمد وسیم اور ان کی ٹیم کے 5 منٹ 55 سیکنڈز پر مشتمل ڈاکومنٹری "دی چین بریکر” نے جیتا جس کا باقاعدہ اعلان 18 اپریل کو کیا گیا۔

"دی چین بریکر” سمیر خان نامی شخص کے گرد گھومتی ہے جو اپنی ماں کی جائیداد کے حق کے لئے اپنے ننھیال سے لڑ پڑا ہےجس کی وجہ سے اس کی ماں سمیت تمام خاندان کے ساتھ بہت سے رشتہ داروں نے قطع تعلق بھی کرلیا ہے۔

محمد وسیم کا کہنا ہے کہ یہ ایوارڈ ان کے کرئیر کے لئے سنگ میل ثابت ہو گا کیونکہ جب انسان کے کام کو عالمی سطح پر پذیرائی ملتی ہے تو یہ اس کے آگے بڑھنے میں آکسیجن کا کام دیتی ہے۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے وسیم کا کہنا تھا کہ یہ فلم انہوں نے ایک عام دستی کیمرے (ہینڈی کیم) سے شوٹ کی تھی۔ ‘ایسے مقابلوں میں ویڈیو کی کوالٹی نہیں دیکھی جاتی بلکہ زیادہ توجہ آپ کے آئیڈیا پر ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پروڈکشن کے بھی نمبر ہوتے ہیں۔’ انہوں نے واضح کیا۔

وسیم نے کہا کہ یونیورسٹی سمیت انہوں نے کہیں بھی فلم میکنگ کی کوئی باقاعدہ ٹریننگ تو نہیں لی لیکن اس فیلڈ میں انہیں آگے بڑھنے کا بہت شوق ہے اور چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں کسی اچھے ادارے سے تربیت حاصل کریں۔

انہوں نے کہا کہ ایوارڈ کے ساتھ ملنے والے 2500 ڈالر سے ان کی کوشش ہو گی کہ پروڈکشن کے لئے بہترین کوالٹی کے کیمرے سمیت کچھ مائیک وغیرہ بھی خریدیں۔

محمد وسیم خان عبدالولی خان یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ سے حال ہی میں فارغ ہوئے ہیں اور وہ یونیورسٹی میں چار سال پہلے پیش آنے والے مشال خان واقعے کے چشم دید گواہ ہیں۔

اس واقعے کے بعد جہاں ایک طرف طلباء کے ذہنوں پر ایک برا اثر پڑا تھا اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوئی تھیں وہاں وسیم نے اس واقعے کو ذہن پر سوار کئے بغیر آگے بڑھنے کا عمل جاری رکھا، وسیم خان کے استاد اور منٹور آصف مہمند نے کہا۔

آصف مہمند نے بتایا ‘اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد میں نے عبدالولی خان یونیورسٹی میں وزیٹنگ لیکچرار کی حیثیت سے کلاسیں لینا شروع کیں تو میں نے محسوس کیا کہ طلباء ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں، وہ بہت کچھ بولنا چاہتے ہیں لیکن انجانے خوف نے ان کے ہونٹ سی رکھے ہیں۔’

اس واقعے کے ساتھ جرنلزم کے طلباء کے ٹیلنٹ کو جیسے زنگ لگ گیا تھا لیکن آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہوتے گئے اور ہونہار طلباء سامنے آتے گئے۔ اب فلم میکنگ میں عالمی مقابلہ جیتنے کے ساتھ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ وسیم اور ان کی ٹیم ان تمام طلباء کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں گے۔

آصف مہمند کا کہنا تھا کہ یہ ایوارڈ اس لئے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں صحافت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور اس شعبے میں کام کے مواقع بہت محدود ہوتے جا رہے ہیں لیکن فلم میکنگ میں ایوارڈ جیتنے والے طلباء نے ثابت کردیا کہ اس فیلڈ میں ملازمتیں صرف چند اداروں تک محدود نہیں بلکہ وہ بہت کم وسائل سے خود بھی چھوٹا موٹا سیٹ اپ بنا سکتے ہیں۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے آصف مہمند نے کہا کہ وسیم کے مقابلے میں دوسری فلمیں بنانے میں ڈرون سمیت اعلٰی کوالٹی کے کیمرے استمال کئے گئے اور ایڈیٹنگ بھی ایسے لگ رہا تھا کہ بہت ہی تجربہ کار ماہرین نے کی تھی لیکن ایوارڈ ہمارے طلباء کے ہینڈی کیم سے بنائی گئی ڈاکومنٹری نے اس لئے جیتا کہ اس آئیڈیا میں اوریجنلٹی تھی، یہ ہمارے پشتونوں کے گھر گھر کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔

وسیم کی ڈاکومنٹری کا مرکزی خیال تھا ‘حضرات! اٹھ کھڑے ہوں خواتین کے حقوق کے لئے’ جس کے لئے انہوں نے چارسدہ میں ایک ایسے سکول استاد کو ڈھونڈ لیا تھا جو کہ اپنی ماں کے جائیداد کے حق کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے اور ننھیال سے سماجی اور قانونی جنگ لڑ رہا ہے۔

ڈاکومنٹری میں وسیم کو اس خاتون کا انٹرویو بھی کرنا تھا لیکن نہ تو وہ خود کیمرے کے سامنے آنے کے لئے تیار ہو رہی تھی اور نہ ہی ان کے بچے اجازت دے رہے تھے۔ بھلا ہو ہماری ٹیم ممبر آمنہ استمراج کا، جن کی مدد سے یہ ممکن ہوا، وسیم نے کہا۔

آمنہ استمراج وسیم کی جونئیر اور آٹھویں سمسٹر کی طالبہ ہیں جو کہ خود مردان کے نہایت ہی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں۔

آمنہ استمراج نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت محنت کے بعد جب خاتون کیمرے کے سامنے آنے کے لئے تیار ہو گئی تو پھر بھی گھبراہٹ میں دل کی باتیں نہ کرسکی۔ ‘بعد میں، میں نے ٹیم کے لڑکوں کو گھر سے باہر جانے کا کہا اور خود خاتون کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو گئی اور جب وہ مجھ سے مانوس ہو گئی تو اسی دوران ہی انٹرویو ریکارڈ کرلیا’ آمنہ نے کہا۔

آمنہ کا کہنا تھا کہ اس ایوارڈ سے نہ صرف ان کا اور ان کی یونیورسٹی کا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن ہوا ہے جس سے ان کی اس خواہش کو اور بھی تقویت ملی ہے کہ سماجی دباؤ سمیت مختلف مشکلات کے باوجود فلم میکنگ میں ہی اپنا کرئیر بنائیں گی۔

آمنہ نے کہا کہ یہاں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایک لڑکی کو اپنی مرضی کا کرئیر منتخب کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں تو سوچیں جب خواتین اپنا حق مانگنے لگیں گی تو ان کے ساتھ معاشرے کا سلوک کیا ہو گا؟

انہوں نے کہا کہ وراثت میں خواتین کے حقوق پر ابھی بہت کام کی ضرورت ہے جس میں پہل میڈیا کو کرنا ہوگا کیونکہ مسائل اجاگر ہونے کے بعد ہی حل کی طرف جاتے ہیں۔

وسیم نے بھی اپنی ڈاکومنٹری کے مین کریکٹر سمیر خان اور ان کی ماں کی ہمت کو داد دی اور کہا کہ وہ خود ایسے لوگوں کو جانتا ہے جنہوں نے اپنی بہنیں صرف اسی وجہ سے نہیں بیاہیں کہ جائیداد میں سے ان کا حصہ الگ کرنا پڑے گا۔

‘ایسے بہت سے لوگ بھی ہیں جو اپنی بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے اور انہیں بیٹوں سے کمتر سمجھتے ہیں’ وسیم نے کہا اور مزید بتایا کہ جب تک ہم میں عورتوں کو کمتر سمجھنے والی سوچ ختم نہیں ہوگی تب تک ان کے حقوق کی بات کرنا عبث ہوگا۔ اس سوچ کو ختم کرنے کے لئے خواتین کو سمیر کی ماں کی طرح خود آگے آنا ہوگا اور جب وہ سامنے آئیں گی تو ہم میڈیا والے ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button