تنخواہوں سے محروم پرائیویٹ سکولز اساتذہ کی کون سنے گا؟
سلمان یوسفزئی
خیبرپختونخوا حکومت نے پرائیویٹ سکولز کو لاک ڈاؤن کے دوران سٹاف کو تنخوا دینے کے لئے مہینے میں پانچ دن کے لئے سکولز کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن ان پر دیگر صوبوں کی طرح سٹاف کو تنخواہوں کی فراہمی لازمی نہیں کروائی ہے جس کی وجہ سے متعدد سکولز انتظامیہ نے اساتذہ سمیت تمام سٹاف کو تنخواہیں دینے سے انکار کردیا ہے۔
کورونا وائرس نے جہاں ایک طرف پوری دنیا کو متاثر کیا ہے وہاں نجی سکولز کے ٹیچرز کو بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں اندیشہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن یوں ہی برقرار رہا تو ان کے گھروں کے چھولے بجھ جائیں گے۔
پشاور کے غیرسرکاری سکولوں میں کام کرنے والی خواتین کا کہنا ہیں کہ کورونا وائرس کی وبائی صورتحال اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اکثر غیرسرکاری تعلیمی اداروں نے اپنے ملازمین کو ماہانہ تنخوا دینے سے انکار کیا ہے۔
پشاورمیں ایک نجی سکول کی ٹیچر تانیہ رحمان نے ٹی این این کو بتایا کہ سکول کے مالک نے انہیں کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سکول میں نئے داخلے نہیں ہوئے ہیں اسلئے وہ ان کو ماہانہ تنخوا نہیں دے سکتیں۔
” ہمیں کہا گیا کہ آپ کو ہم رواں مہینے کہ تنخوا نہیں دے سکتیں، مالک کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے سکول کے آمدن میں کمی واقع ہوئی ہیں ہم بغیر آمدن کے کسی بھی ٹیچر کو تنخوا دینے سے قاصر ہیں”
تانیہ رحمان کے گھرانے کے اخراجات کا کچھ حصہ ان کے ذمے ہے۔ ان کے بقول اگر انہیں وقت پر تنخوا نہیں ملی تو وہ مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔
ایک اور نجی سکول کی ٹیچر یاسمین خان نے کہا کہ سکول انتظامیہ نے ان سمیت 17 خواتین اساتذہ کو کہا ہے کہ انہیں دو مہینے کی تنخوا نہیں ملے گی۔
وہ کہتی ہے سکول میں انہیں 15 ہزار تنخوا ملتی ہے جس میں وہ ہر مہینے کمیٹی بھی ڈالتی ہیں لیکن اگر انہیں دو مہینے کی تنخوا نہیں ملی اور اس کی کمیٹی کی قسط چھوٹ گئی تو اسے اگلے مہینے سارے پیسے ایک ساتھ دینے میں دقت پیش آئے گی۔
دوسری جانب پشاور میں پاکستان پبلک سکول اینڈ کالج کے چئیرمین قاضی میرویس نے ٹی این این نے کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیگر اداروں کی طرح غیرسرکاری تعلیمی ادروں پر بھی منفی اثر پڑا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پبلک سکول اینڈ کالج نے اپنے چار برانچز کے ملازمین کو وقت پر اپنی تنخواہیں دے دی ہیں لیکن انہں خدشہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کا سلسلہ برقرار رہا اور مئ کے بعد بھی تعلیمی سرگرمیاں بحالی نہ ہوئی تو وہ مشکلات سے دو چار ہوسکتے ہیں۔
قاضی میرویس کے مطابق ان کے انسٹیویٹ کا ماہانہ خرچ 25 لاکھ روپے ہے۔ جس میں ملازمین کی تنخواہیں بھی شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک ادارہ جس کا دارو مدار طلبہ کی فیس پر ہی ہوتا ہے مسلسل 6 مہینے کی بندش کے بعد اس قابل نہیں رہتا کہ اپنے سسٹم اور سٹاف کو آگے لے جا سکیں۔ لیکن پھر بھی وہ پرامید ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر مشکل وقت میں اپنے ملازمین کا ساتھ دیں اور ان کی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے میں انکی مدد کریں۔
اس حوالے سے صوبائی وزیربرائے لیبر اینڈ کلچر شوکت یوسفزئی نے کہاہے کہ صوبائی حکومت نے غیرسرکاری اور نجی اداروں کو ہدایت دی ہیں کہ وہ اپنے ملازموں کو وقت پر تنخوائیں دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مزدورں کے فلاحی ادارے کے پاس 50 ہزار ضرورت مند مزدورں کے نام رجسٹرڈ ہیں جن میں پرائیویٹ سکولز کے اساتذہ اور دیگر سٹاف بھی ہیں اور انہوں نے وہ فہرست مرکز کو ارسال کیا ہیں جس کا مقصد وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی محمود خان کی جانب سے اعلان کردہ مالی معاونت پیکجز میں ان ضرورت مند اساتذہ کو حصہ دینا ہیں۔
شوکت یوسفزئی نے مزید کہاکہ اگر کوئی مزدور/ یا ضرورت مند غیرسرکاری ملازم حکومت کے اعلان کردہ پیکج حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے موبائل سے 8171 پر اپنا قومی شناختی کارڈ نمبرایس ایم ایس کر کے مالی معاونت حاصل کرسکتا ہے۔