شانگلہ پھر سوگوار، درہ آدم خیل حادثہ میں زخمی تینوں مزدور جاں بحق
سی جے سرفراز خان سے
شانگلہ ایک بار پھر سوگ میں ڈوب گیا، ایک طرف اگر سندھ میں دس ہزار سے زائد مزدور مراد علی شاہ حکومت کی بے حسی کا شکار ہیں تو دوسری جانب یکم اپریل کو درہ آدم خیل کوئلہ کان میں گیس بھر جانے سے دھماکہ کے نتیجے میں بری طرح جھلسنے والے شانگلہ کے تین مزدور انتقال کر گئے۔
نمائندہ ٹی این این کے مطابق تینوں کوئلہ کان مزدوروں کا تعلق شانگلہ کی یونین کونسل پیر آباد سے تھا آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ درہ آدم خیل کے اولڈ بازی خیل مائن نمبر دو میں یکم اپریل کو کام کے دوران گیس بھر جانے سے محمد اسلم، محمد زمان اور خیر الافسر نامی تین مزدور بری طرح جھلس گئے تھے جس کے بعد انھیں کوئلہ کان سے نکال کر حیات آباد پشاور برن سنٹر منتقل کردیا گیا تھا جہاں وہ پانچ روز تک زیرعلاج رہے تاہم جانبر نہ ہو سکے۔
محمد اسلم کا تعلق کنڈاؤ میاں کلے جبکہ خیرالافسر اور محمد زمان کا تعلق پاگوڑئی گاؤں سے تھا، جنازے کے دوران رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں کوئلہ کان مزدوروں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سموا کے جنرل سیکرٹری عابد یار خان نے بتایا کہ درہ آدم خیل سمیت صوبے کے تمام مائننگ ایریاز میں کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر صوبائی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کام بند کیا تھا اور یہ واقعہ نوٹیفکیشن کے اجراء کے بعد ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
کوئلہ کان نے شانگلہ کے دو مزید گھر اجاڑ دیئے
‘کان جس سے 5ہزار ٹن کوئلہ تو نکلا، ایک مزدور کی لاش نہ نکالی جا سکی’
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔
یاد رہے کہ شانگلہ کے ستر فیصد سے زائد لوگ کان کنی کے پیشے سے وابستہ ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں کوئلہ کانوں میں کام کرتے ہیں۔
حالیہ کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے بعد ہزاروں مزدور اگر ایک طرف بے روزگار ہوئے ہیں تو دوسری جانب سندھ سمیت بلوچستان اور کے پی کے مختلف علاقوں میں ہزاروں مزدور پھنس کر رہ گئے ہیں جن میں دس ہزار سے زائد مزدور سندھ میں موجود بتائے جاتے ہیں۔
گذشتہ دنوں شانگلہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں انہوں نے سندھ حکومت پر کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں سے منہ موڑنے کا الزام عائد کیا تھا۔