خیبر پختونخوا

‘کورونا وائرس کی تصدیق نے تو جیسے پاوں تلے سے زمین کھینچ لی’

ناہید جھانگیر

پشاور کے کارخانوں مارکیٹ میں فارمیسی دوکاندار اٹھائیس سالہ عادل میں جب کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی تو ان پر اور ان کے گھرانے سمیت تمام علاقے پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی لیکن حیران کن طور پر ایک ہفتے علاج کے بعد ہی ہسپتال نے انہیں مکمل صحتیاب قرار دیکر گھر واپس بھیج دیا۔

عادل نے اپنے علاج کے حوالے سے بتایا کہ ان کو انجیکشن کے ساتھ  درد اور بخارکی گولیاں دی جاتی تھیں۔

عادل نے بتایا کہ شروع میں ان کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی اور سینہ خراب ہونے کے ساتھ ان کے گلے میں بھی انفیکشن ہوا، ان تمام تکالیف کے ساتھ ساتھ ان کو مسلسل تین چار روز تک تیز بخار بھی رہا۔ وہ مقامی ڈاکٹر کے پاس گئے لیکن ان کے نسخہ سے افاقہ نہیں ہوا تو رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں اپنا معائنہ کیا جہاں ڈاکٹر کو شک ہوا اور اس نے پولیس سروس ہسپتال میں ٹیسٹ کے لئے بھجوایا جہاں عادل میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔

عادل کا کہنا ہے کہ اس ایک ہفتے میں ڈاکٹرز انہیں دواؤں سے زیادہ خوراک (سبزیاں اور تازہ پھل)پر توجہ دینے کی ترغیب دیتے رہیں اور ذہنی طور پر خود کو مضبوط رکھنے کی تلقین کرتے رہیں لیکن ہسپتال میں صرف منرل پانی کے علاوہ کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔

‘میں تو خود قرنطینہ میں تھا تو اپنے بیٹے کو کسطرح کھانا پہنچاتا’  عادل رحمان کے والد ایوب خان نے کہا۔ عادل میں وائرس کی تشخیص کے بعد انکے تمام گھروالوں کو بھی محکمہ صحت نے قرنطینہ ہوا کیا تھا۔

دنیا بھر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے بچنے کا واحد حل سماجی میل جول سے گریز ہے لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں، جہاں وائرس خطرناک ہے وہاں اس کا علاج بھی دنیا کے ماہرین کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ امریکہ اور دیگر چند ممالک کی طرح  پاکستانی طب  ماہرین نے بھی کلوروکوئین نامی میڈیسن پر تحقیق کا عمل شروع کردیاہے، ابھی کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا تاہم تحقیق شروع کرنے کے یہی قوی وجوہات ہیں کہ کلوروکوئین میڈیسن کورونا وائرس کے علاج کے لیے موثرثابت ہوسکے گی۔

کورونا وائرس مریضوں کا علاج کرنا جہاں ڈاکٹروں کی اولین فرض ہے وہاں وہ بھی علاج کے ساتھ ساتھ کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔

‘تنہائی میں بیٹھ کر یہی سوچ گھیر لیتی ہے کہ شاید اس مشکل سے کبھی نا نکلیں، بچوں کو خود سے الگ کر لیا ہے، گھر کے ملازموں کو چھٹی دے دی ہے، کیونکہ سائیکلوجیکل اثرہر چیز کا ہوتا ہے، وہی وہم رہتا ہے کہ کوئی میری چیزوں کو ہاتھ نا لگائے۔’ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی ڈاکٹراسسٹنٹ پروفیسر عائشہ نے کرونا وائرس کے حوالہ سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر عائشہ شروع ہی سے آئی سی یو میں ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں جہاں پر کورونا مریضوں کا آئسولیشن وارڈ بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ ہسپتال میں تو ڈیوٹی کے اوقات کار میں زیادہ سوچنے کا وقت نہیں ملتا لیکن جب گھر آکر تنہائی میں ہوتی ہیں تو کافی ذہنی دباؤ میں رہتی ہیں کہ پتہ نہیں آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، کیونکہ ایک ماں کے لئے ذیادہ دنوں تک بچوں سے دور رہنا نہ صرف مشکل بلکہ کافی تکلیف دہ بھی ہے۔

پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 2800 تک پہنچ چکی ہے جن میں 44 جاں بحق جبکہ 131 صحتیاب ہوکر گھروں کو جا چکے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں دیگر صوبوں کی طرح یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور گزشتہ دنوں 29 نئے کیسز سامنے آنے کے ساتھ صوبے میں کل 372 مریض ہوگئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک 13 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ہونے کے ناطے کورونا کے زیادہ تر مشتبہ مریض بھی لیڈی ریڈنگ ہسپتال لائے جاتے ہیں جس کا ڈاکٹروں کی نفسیات پر بھی اثر پڑا ہے۔

‘ہسپتال میں کرونا کا کوئی مشتبہ مریض لایا جاتا ہے تو دل پر ایک عجیب سا خوف طاری ہو جاتا ہے لیکن چونکہ ڈاکٹر ہونے کے ناطے ہم نے قسم کھائی ہے کہ ہر صورت میں مریض کا علاج کریں گے تو یہی احساس ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے خود کی زندگی خطرے میں ڈآل کر علاج کرتے ہیں۔’

یہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شہریار کے خیالات ہیں جو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں کرونا کے مشتبہ مریضوں کے لئے مختص کیے گئے وارڈ میں ڈیوٹی کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر شہریار نے بتایا کہ کرونا وائرس ہوا میں نہیں پھیلتا یا اس طرح ہونے کے بہت ہی کم چانسز ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی کرونا وائرس کا مشتبہ مریض ہے جس میں ابھی تک کرونا وائرس کی تشخیص نہیں بھی ہوئی تو بھی اس سے ایک میٹر فاصلہ ضروری ہے، مزید یہ کہ منہ پر ماسک لازمی لگایا جائے جو اس وائرس سے بچاؤ کی تدابیر کا ایک اہم حصہ ہے۔

کرونا ایک نیا وائرس ہے اور دنیا اب اس پر تحقیق کر رہی ہے تو اس پر زیادہ بات نہیں کی جا سکتی لیکن یہ ہے کہ اگر 100 لوگوں میں کرونا وائرس موجود ہے تو اس میں 95 فیصد لوگ بغیر کسی علامات کے خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن وہی لوگ دوسروں کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں کہ ان سے یہ مرض دوسروں کو لاحق ہو سکتا ہے۔ اسی طرح باقی 5 فیصد میں سے دو یا تین میں اس وائرس کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں اور انہیں ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے، ڈاکٹر نے کہا۔

کیونکہ یہ ایک نیا مرض یا وباء ہے تو مریض کی کنڈیشن کو مدنظر رکھ  کر وینٹی لیٹر کے علاوہ کچھ  متفقہ طور پر تجویز شدہ ادویات دی جاتی ہیں، لیکن اس کو فی الحال  ظاہر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسا نا ہو لوگ خود ہی لینا شروع کردیں جو کہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ ہاں البتہ مریض کو بروفن دوائی لینے سے منع کیا جاتا ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق صوبے میں آبھی تک 2100 سے زائد افراد کے کورونا ٹیسٹس کئے گئے ہیں جن میں874 منفی آئے ہیں جبکہ 951 کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں۔

صوبائی مشیر اطلاعات اجمل وزیر کے مطابق صوبے میں مشتبہ افراد کے لئے 176 قرنطینہ مراکز قائم کئے جا چکے ہیں جن میں 4400 افراد کی گنجائش ہے۔( قرنطینہ سینٹرز میں صرف بیڈ ہیں اور کوئی خاص سہولت نہیں ہیں ،ہاں وہاں مشتبہ مریض کا معائنہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں کورونا وائرس کے علامات تو ظاہر ہونا شروع نہیں ہوئے )

انہوں نے کہا کہ مختلف مراکز میں اب تک 416 افراد کو کورنٹآئن کیا گیا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر تعینات 515 طبی عملہ بھی کورنٹائن ہے۔

اجمل وزیر نے کہا کہ صوبے میں کرونا وائرس کے پیش نظر صوبائی حکومت نے صوبہ بھر میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی ہے، خوراک کی اشیاء اور میڈیسن کے علاوہ تمام کاروبار بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے، کابینہ کے خصوصی اجلاس میں 8 ارب سے زائد فنڈز کی منظوری دی گئی ہے، کورونا سے متاثرہ مریضوں کے اہل خانہ کو مفت راشن دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ اجمل وزیر نے کہا کہ تمام اضلاع کو کرونا کے تدارک کیلئے ایک ارب 73 کروڑ کا فنڈ جاری کیا جائے گا اور ساتھ میں 1300 نئے ڈاکٹرز فوری طور پر بھرتی کئے جا رہے ہیں، صحت کے عملے کو خصوصی ٹریننگ دی جائے گی جبکہ حفاظتی سامان و آلات تمام اضلاع کو فراہم کرنے کا عمل شروع ہو گیا ہے جس میں تھرمل گن، ماسک، گاؤن، دستانے، گوگلز وغیرہ شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس ٹسٹ کی سہولیات صرف پولیس سروس ہسپتال میں ہے اور ہسپتالوں میں اگر کسی مریض کو بخار اور زکام کی شکایت ہوتی ہے تو ان کو مشتبہ مریض کے طور پر پولیس ہسپتال بھیجا جاتا ہے، یہ پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے میڈیا منیجر اور ترجمان محمد عاصم نے کہا اور مزید بتایا کہ اگر لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی بات کی جائے تو یہاں ڈاکٹرز ہر آنے والے مریض کا معائنہ کرتے ہیں، اگر کسی مریض کو سخت بخار کے ساتھ گلے میں تکلیف کی بھی شکایت ہو تو اس کا نام مشتبہ کورنا وائرس لسٹ میں درج اور اسے ایمبولینس کے ذریعے پولیس ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے، لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں کرونا وائرس کے آئسولیشن وارڈ میں 18 وینٹی لیٹرز ہیں۔

کرونا وائرس ٹسٹ کے حوالے سے عاصم نے کہا کہ پولیس ہسپتال میں مشتبہ مریض کے بلڈ سیمپل کے ساتھ سواب ٹیسٹ بھی ہوتا ہے، سواب ٹیسٹ وہ ہوتا ہے جس میں ایک باریک سٹک کے سرے میں روئی ہوتی ہے، وہ مریض کے گلے میں داخل کرکے غدود لئے جاتے ہیں اور اس  ٹیسٹ کا رزلٹ آنے میں 48 گھنٹے لگتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگر مریض کا ٹیسٹ مثبت آجائے تو اس کے لئے بھی دو مراحل ہیں ،ایک ان کو 14 دن کے لئے قرنطینہ بھیجا جاتا ہے، انہی 14 دنوں میں اگر شدید علامات ظاہر ہو جائیں تو دوسرے مرحلے میں علاج کے لئے اس مریض کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا جاتا ہے جہاں اسے آئسولیشن وارڈ میں داخل کرکے مزید طبی سہولیات دی جاتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button