خواتین سے میڈیا کا سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں؟
ناہید جہانگیر
‘جب تک میڈیا ادارے صحافت کو مشن کی بجائے صنعت مانیں گے تب تک کوئی امکان نہیں کہ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں خواتین کے اصل مسائل پر بات کی جائے کیونکہ وہ خواتین کو ادھی ابادی ماننے کی بجائے ایک شے کے طور پر دیکھتے ہیں اور انہیں صرف خبروں میں رنگینی لانے کے لئے شامل کیا جاتا ہے۔’
ان خیالات کا اظہار پشاور کی خاتون صحافی زینت بی بی نے میڈیا میں خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے ٹی این این کے عورتوں کی عالمی دن کی مناسبت ترتیب کیے گئے ایک پروگرام میں کیا۔ پروگرام میں سینئر صحافی عبدالروف یوسفزئی اور سماجی کارکن نادیہ خان نے بھی شرکت کی۔
زینت نے بتایا کہ جب سے پاکستان میں پرائیویٹ میڈیا صحافت کی بجائے ایک بزنس ماڈل کے طور پر سامنے آیا ہے چینلز مالکان کو لوگوں اور بالخصوص خواتین کے مسائل سامنے لانے سے کوئی سروکار نہیں بلکہ انہیں سکرین پر وہ دکھانا ہے جو ناظرین کو اپنی طرف کھینچ سکیں۔
ہر نیوز ادارے پر سب سے زیادہ کوریج سیاست کو دی جاتی ہے، دوسرے نمبر پر کرائم بیٹ ہوتا ہے اور جہاں تک عورتوں کے حوالے سے رپورٹ یا نیوز کا سوال ہے انکو بہت ہی کم ٹائم دیا جاتا ہے۔ پھر اگر ہم میڈیا میں خواتین کی نمائندگی کو دیکھے اور پشاور نیوز چینل کی بات کی جائے تو یہاں صرف ایک ہی خاتون ہوتی ہیں اور ان کو خواتین کے مسائل کا بیٹ اسائن کیا جاتا ہے تو ان کے لئے کیسے ممکن ہے کہ تنہا آدھی ابادی کے مسائل سامنے لائیں؟
اخبارات میں خواتین کی کوریج کے حوالے سے زینت نے کہا کہ اگر آپ ایک اخبار اٹھائے اور اسکے صرف 3 صفحات کو غور سے پڑھے تو پتہ چل جائے گا کہ ان میں خواتین کے حوالے سے کتنا مواد موجود ہیں اور کس قسم کے مسائل بیان کئے گئے ہیں اور اہم بات یہ کہ ان خواتین کے لئے کس قسم کے الفاظ کا چناو کیا گیا ہے؟ خواتین اخبار میں شوبز پیج یا فیشن میگزین پر نظر آتی ہیں۔
‘ہم سب ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں خواتین کو 100 قسم کے مسائل ہیں، تعلیم حاصل کرنے کے حقوق سے لیکر جائیداد میں حصے تک جو اسلام نے تمام خواتین کو پہلے سے ہی دی ہیں لیکن معاشرے نے ان تمام حقوق سے ایک عورت کو بہت اسانی سے محروم کیا ہے۔ان حقوق حاصل کرنے لئے آواز اٹھانا ہوگی’ انہوں نے کہا۔
زینت نے کہا کہ وہ اگرنیوز پرسن کی بات کریں تو 50 فیصد خواتین نظر آئیںگی لیکن فل میک اپ میں ہونگی لگتا ہے جیسے انکو سکرین کی رونق بڑھانے کے لئے شوپیس کے طور پر بٹھایا گیا ہیں۔ پاکستانی میڈیا کو چاہئے کہ وہ اس طرف دھیان دے اور سوچے کہ اس خلا کو کسطرح پر کیاجاسکتا ہے۔
خواتین کو پاکستانی میڈیا میں کس طرح پیش کیا جاتا ہے؟ اس حوالے سے سینئر جلرنلسٹ عبدالروف نے بتایا کہ تین قسم کی میڈیا ہیں انگلش، اردو، اور سوشل میڈیا۔
انگلش اخبارات جدید میڈیا کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان میں خواتین کے ساتھ تھوڑا بہت انصاف کیا جاتا ہے جہاں پر کسی حد تک عورت کو نہ تو اردو اخبارات اور ٹی وی چینلز کی طرح شوپیس کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں اتنا وکٹمائز یعنی متاثرہ دکھایا جاتا ہے کہ معاشرے کو عورت غیر ارادی طور پر کمزور معلوم ہو۔
پھر اگر اردو میڈیا کی بات کی جائے تو وہاں عورت کو صحیح انداز میں پیش کرنے کے معاملے میں بہت ظلم کرتا ہے اور یہ ظلم مختلف طریقوں سے کیاجاتا ہے۔ مثلا اگر غیرت کے نام پر قتل کی بات کی جائے تو اس خبر میں زیادہ فوکس عورت کو ہی بنایا جاتا ہے اور عورت کے کردار تک اس پر بات کی جاتی ہیں۔
پھر اگر سوشل میڈیا کی بات کی جائے جسکی وجہ سے پوری دنیا میں یلغار ہیں لیکن اس میں بھی کوئی خاص یا مخصوص گائیڈ لائن نہیں بنائی گئ ہیں۔ خواتین کی جو اصل مسائل ہیں یا حقوق ہیں یا اگر ذمہ داریاں ہیں اس شکل میں سامنے نہیں آتی جسطرح ضروری ہیں، سوشل میڈیا شہرت کے لئے ایک کرتب کے طور پر استمال کی جاتی ہے یعنی جو چیز زیادہ سنسنی خیزی پھیلائیں یا دیکھنے والوں کو اپنے جانب کھینچنے کی کوئی چیز ہو تو پھر عورت ذات کو اس کے لئے موزوں سمجھا جاتا ہے۔
یہ ذمہ داری کسی بھی میڈیا آرگنائزیشن میں گیٹ کیپر مطلب نیوز ایڈیٹرکی ہوتی ہیں۔رپورٹرز تو فیلڈ سے کوئی نہ کوئی خبر لے کر آجاتے ہیں لیکن اسکو شائع کرنا پھر ایڈیٹر کا کام ہے کہ وہ کسطرح ایک بہتر انداز میں اسکا صحیح میک اپ کر کے پیش کرتا ہے۔عورتوں کو جسطرح میڈیا پر پیش کرنا چاہئے تو ہماری بدقسمتی ہے کہ اس طرح سے بالکل بھی نہیں پیش کیا جاتا، عبدالروف نے بتایا۔
نادیہ خان سماجی کارکن نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں خواتین کو کسطرح پیش کیا جاتا ہے اس میں جو خلا ہے اس کو پر کرنے کے لئے صدیاں در کار ہیں اور لانگ لائف جدوجہد کی ضرورت ہے کہ جو نظام چلا آرہا ہے اسکو توڑ سکے۔
لیکن جہاں تک میڈیا میں ایک عورت کو کسطرح سے پیش کیا جاتا ہے اس حوالے سے بات کی جائے تو انکو اوبجیکٹفائی کیا گیا ہے نہ صرف میڈیا میں اگر نصاب دیکھا جائے تو اس عورت کو کمزور دکھایا گیا ہے۔
سماجی کارکن نادیہ خان کے مطابق صحافت کے علاوہ شوبز میں بھی میڈیا خواتین کو ایک شے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی پراڈکٹ ہے یا اشتہار ہے اس میں جس میں خاتون کی کوئی ضروت ہوتی بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی شوپیس کے طور پر اس میں خاتون کو جگہ دی جاتی ہیں۔
نادیہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا اشتہارات پر اگر غور کیا جائے تو شلوار قمیض جو عورت پہنتی ہیں تو وہ اچھی خاتون ہے یا جو نرم مزاج ہے تو وہی آئڈیل خاتون کے طور پر سامنے لایی جاتی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں عورت کے لئے کوئی ایسا کردار ہی نہیں ہے جس میں انکو ایک اچھا فیصلہ ساز یا بڑے پوزیشن پر دنیا کو دکھایا جائے۔ لیکن پاکستانی ڈراموں اور اشتھارات یا کرداروں میں عورت ذات کمزرو یا بے وقوف نظر آتی ہیں۔
نادیہ مزید کہتی ہیں کہ جس ڈرامہ میں عورت پر زیادہ تشدد ہو یا رونے کا کردار کریں وہی ڈرامہ سپر ہٹ ہوجاتاہے، لیکن اسکے برعکس جس ڈرامہ میں عورت ہائی پوزیشن پر دکھایا جائے تو ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ اس پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
اشتہارات کے حوالہ سے نادیہ خان نے بتایا کہ پاکستانی اشتہارات میں بھی عورت کچن میں کام کرتی نظر آتی ہے یا چائے بنا رہی ہوگی یا برتن دھو رہی ہونگی اور دیکھنے والی کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ ایک اچھی عورت ہے۔ نادیہ خان نے کہا کہ پاکستانی میڈیا نے عورت مرد کو صنفی کرداروں میں تقسیم کردیا ہے۔
اس موقع پر زینت نے کہا کہ جس طرح ڈراموں یا اشتہارات میں خواتین کو کسی بڑے عہدے پر دکھایا نہیں جاتا بالکل اسی طرح حقیقی زندگی میں بھی پرائیویٹ اداروں اور بالخصوص میڈیا میں ان کو ٹیلنٹ کے باوجود بڑا عہدہ دیا بھی نہیں جاتا۔ انہوں نے کہا فی الوقت پشاور میں سینکڑوں ٹی وہ چینلز اور اخبارات ہیں جن میں صرف ایک ٹی وہ چینل کی بیوروچیف خاتون ہے۔
زینت نے کہا اس کے علاوہ خواتین صحافیوں کو مردوں کے مقابلے میں تنخواہیں بھی کم دی جاتی ہیں اور انکا استحصال کیا جاتا ہے۔ ڈراموں میں خواتین کے کردار کے حوالے سے زینت نے کہا کہ خاتون کے صرف چند سٹیروٹائپ کردار ہیں جو ان سے اسانی سے لی جاتی ہیں۔
‘ڈراموں میں ایک ورکنگ عورت کو بہت منفی دکھایا جاتا ہے یعنی کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتی، وہ مںہ پھٹ ہوتی ہیں، اس نے بہت میک اپ کیا ہوگا،وہ ویسٹرن ڈریس پہنتی ہونگی۔ اور ایسا نہیں ہے جو میڈیا غلط سمت میں ہمارے معاشرے میں عورت کی تصویر دنیا کو پیش کر رہی ہیں’۔
نادیہ خان کے مطابق ایک سوشل میڈیا ہی ہے جہاں خواتین آواز اٹھا سکتی ہیں اپنی رائے کا اظہار کر سکتی ہیں لیکن وہاں پر بھی آن لائن ہراسمنٹ کا سامنا ہے، جس سے زینت نے بھی اتفاق کیا اور کہا کہ سوشل میڈیا بھی ڈیجیٹل سیکیورٹی کے حوالہ سے آگاہی ضروری ہوجاتی ہے اگر نہیں تو پھر بے شمار مسئلے ہوسکتے ہیں۔