پشاور کے سنہری مسجد میں پہلے دن خواتین سے زیادہ صحافی نظر آئے
افتخار خان
پشاور صدر کے علاقہ نوتھیہ میں سڑک کنارے واقع سنہری مسجد کے پیچھے کالونی میں دس، بارہ صحافی کیمرے لئے بارش کے باوجود کھلے آسمان تلے کھڑے ہیں اور گلی میں سے گزرنے والی ہر خاتون کو دیکھ کر اپنے اپنے کیمروں کے پیچھے اس امید کے ساتھ چوکنے ہو جاتے ہیں کہ شاید وہ مسجد میں داخل ہو لیکن ان کی امید اکثر اوقات دم توڑ دیتی ہے۔
نماز جمعہ سے پہلے یہ منظر تقریباً آدھا گھنٹہ چلا اور اس دوران بمشکل 10 خواتین مسجد میں داخل ہوتی ہیں۔
یہ آٹھ، دس خواتین بھی آج پشاور کے حوالے سے بہت بڑی خبر تھی کیونکہ تقریباً دو عشرے پہلے شہر میں دہشت گردی کے باعث سنہری مسجد میں خواتین کا داخلہ بند کیا گیا تھا، آج ان کے لئے مسجد میں باجماعت نماز کا انتظام امن کی گواہی ہے۔
سنہری مسجد پشاور کی بڑی اور تاریخی مساجد میں سے ایک ہے جس کا کل رقبہ 18 ہزار مربع فٹ ہے اور اس میں بیک وقت 6 ہزار تک نمازیوں کی گنجائش موجود ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد 1946 میں رکھا گیا تھا اور تقریباً چھ سال میں مکمل کی گئی تھی۔
سنہری مسجد میں فی الحال خواتین کو صرف جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی اجازت دی گئی ہے لیکن مسجد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بہت جلد یہاں پر خواتین بھی مردوں کی طرح تمام نماز ادا کرسکیں گی۔
مسجد میں خواتین کے لئے مین ہال کے اوپر تیسری چھت میں ایک ہال مختص کیا گیا ہے جس کا دروازہ بھی مسجد کے بڑے گیٹ کی بجائے ایک چھوٹی بند گلی میں ہے جہاں سے عمومی طور پر مرد نمازیوں کا بھی گزر نہیں ہوتا۔
خواتین کی موجودگی کے پیش نظر آج مسجد کے خطیب نے جمعہ کے خطبہ میں بھی خواتین کے حقوق اور ان کو درپیش مسائل بیان کئے اور نماز کے بعد بھی کچھ دیر کے لئے لاوڈ سپیکر پر حیا اور عورتوں کے لباس کے حوالے سے باتیں کیں۔
سنہری مسجد کے نائب خطیب محمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ مسجد صدر بازار میں ہے جہاں خواتین بڑی تعداد میں سودا سلف کے لئے آتی ہیں تو اس سے نہ صرف ان کی نماز کے لئے جگہ کی عدم دستیابی کا مسئلہ حل ہوگا بلکہ خطبہ سے ان کو مسائل اور حقوق کے حوالے سے علم بھی حاصل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اکثر بازاروں میں دیکھا گیا ہے کہ خواتین دوکاندار سے نماز کی جگہ کا پوچھتی ہیں تو یا ان کے لئے اسی دوکان میں اہتمام کیا جاتا ہے یا پھر ان سے وہ نماز رہ جاتی ہے لیکن سنہری مسجد کے آس پاس مارکیٹوں میں اب ایسا نہیں ہو گا۔
نماز کی ادائیگی کے بعد رپورٹرز اور کیمرہ مین ایک بار پھر متحرک ہوتے ہیں تاکہ جونہی نمازی خواتین سیڑھیوں سے نیچے آئیں تو ان کی ویڈیوز بنائی جائیں۔ اس دوران یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشیاں بھی کر رہے ہیں کہ ایسا نہ ہوں کوئی خاتون یا مسجد انتظامیہ برا مان جائے اور انہیں برا بھلا کہے۔
جیسے تیسے یہ مرحلہ گزرتا ہے لیکن یہ کیا، صحافی حضرات کو ایک اور مسئلے نے پریشان کردیا۔ انہیں اپنی رپورٹس میں خواتین کی نماز کے وقت کچھ ویڈیوز اور انٹرویوز چاہئے تھے لیکن بھلا ہو ان کے درمیان موجود واحد خاتون رپورٹر کا جنہوں نے مجھ سمیت موجود تمام ساتھیوں کا یہ مسئلہ حل کردیا اور آخر میں رہ جانے والی ایک عمر رسیدہ خاتون اور ایک نوجوان لڑکی کو نہ صرف بوقت نماز ویڈیوز بنوانے بلکہ کیمروں کے سامنے انٹریوز کے لئے بھی راضی کرلیا تو ان پر کیمرے ایسے فوکس ہوگئے جیسے کوئی بڑی سیلیبرٹیز ہوں۔
اس موقع پر اس عمر رسیدہ خاتون نے بتایا کہ وہ مسجد کے قریب ہی رہتی ہیں اور انہیں بڑا ارمان تھا باجماعت نماز ادا کرنے کا جو کہ آج پورا ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سنہری مسجد کو خواتین کے لئے دوبارہ کھلوانے میں ان کا بھی کردار ہے کیونکہ مسجد انتظامیہ کو وہ بار بار اس کی درخواستیں کر رہی تھیں۔
اس طرح اس نوجوان لڑکی کا کہنا تھا کہ انہیں بھی بڑی خوشی ہوئی باجماعت نماز ادا کرکے۔ ‘آج بیشک خواتین بہت کم آئی تھیں مسجد لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں کہ سنہری مسجد خواتین کے لئے کھولا گیا ہے’ انہوں نے کہا۔
انہوں نے مسجد انتظامیہ سے درخواست بھی کی کہ چونکہ رمضان قریب ہے اس لئے خواتین کے لئے باجماعت نماز تراویح کا اہتمام بھی کیا جائے۔
گو کہ پہلے جمعہ میں خواتین کی تعداد ان کی کوریج کے لئے آئے صحافیوں سے کم تھی لیکن اس اقدام کو بڑی تبدیلی مانا جاتا ہے۔
اس حوالے سے سینئر صحافی قیصر خان کا کہنا ہے کہ نائن الیون اور پھر امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد یہ خطہ دہشت گردی کا مرکز بن گیا، اس دوران پاکستان میں قبائلی اضلاع کے بعد اگر کسی ایک شہر نے زیادہ قربانیاں دی ہیں تو وہ پشاور ہے۔
‘2007،08 کے بعد ایک دور ایسا آیا کہ پشاور میں دھماکے اور دہشت گردی کے دیگر واقعات روزانہ کا معمول بن گئے، جس دن کوئی دھماکے کی خبر نہیں ہوتی تھی نیوز رومز میں یہی بات خبر بن جاتی’ قیصر نے اپنا تجربہ بیان کیا۔
انہوں نے کہا کہ آرمی پبلک سکول حملے میں 144 بچوں کی شہادت ہو، خیبر بازار، سیکرٹریٹ ملازمین کی بس یا بشیر بلور پر خودکش حملے، ان دھماکوں میں سینکڑوں لوگوں کے مرجانے کی خبریں ہوں یا مساجد سمیت مذہبی مقامات پر حملے، یہ سب اور ان جیسے سینکڑوں مزید حملے نہ صرف یہاں کے باسیوں کو جسمانی طور پر متاثر کرتی تھیں بلکہ ان کی وجہ سے اس شہر کی اکثریت آبادی ذہنی طور پر بھی متاثر ہوئی، ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ اثر خواتین اور بچوں پر پڑا ہے۔
‘آج سنہری مسجد کا خواتین کے لئے دوبارہ کھل جانا واقعی خوشی کی خبر اور امن کی نشانی ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں کہ آج زیادہ تعداد میں خواتین مسجد نہیں آئیں لیکن مجھے امید ہے کہ بہت جلد یہ مخصوص ہال نمازی خواتین کے لئے کم پڑے گا۔’