وہ خاتون جو افغانستان سے آئیں، پشاور میں جینا سیکھا، اب دوسروں کو سکھا رہی ہیں
افتخار خان
قندی صافی کا تعلق افغانستان کے صوبے لغمان سے ہیں، وہ 1998 میں اس وقت اپنے شوہر اور شیرخوار بچے سمیت پشاور منتقل ہوگئی جب وہاں طالبان حکومت نے بازاروں میں خواتین کے نکلنے پر پابندی لگائی۔ قندی صافی کے شوہر کا کابل میں افغان خواتین کے ثقافتی کپڑوں کے ڈیزائننگ اور خرید اور فروخت کا کاروبار تھا لیکن بازاروں میں خواتین پر پابندی سے ان کا کاروبار ماند پڑھ گیا تو وہ اپنے خاندان اور کاروبار کے ساتھ پشاور منتقل ہوگِئے۔
پشاور منتقل ہونے کے بعد جہاں ایک طرف اس خاندان کے معاش کا پہیہ دوبارہ چل پڑا تو وہی انکو پرامن اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے قدرے بہتر ماحول اور معاشرہ بھی میسر آیا جس کا قندی صافی نے خوب فائدہ اٹھایا۔
تقریبا 20 سال تک خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو جانچنے اور ان کے کردار کو سمجھنے کے بعد آخر کار وہ خود اس میدان میں کھود پڑی۔
‘میں نے ڈیڑھ سال پہلے دیگر سماجی ورکر خواتین کے ہمراہ "واک” [اختیار] کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا جس میں ہم عورتوں کو سیاسی شعور فراہم کرنے کے علاوہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے کوششیں کرتی ہیں’ ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے قندی صافی نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک کا اغآز خیبر پختونخوا سے کیا گیا ہے اور مختلف اضلاع میں اس کی تنظیم سازی کی جا چکی ہے جس کے ممبران عام خواتین تک پہنچنے کے لئے نہ صرف وقت در وقت واک اور ریلیاں نکالتی ہیں بلکہ گھر گھر جاکر بھی اپنا پیغام پہنچاتی ہیں۔
قندی صافی نے خیال ظاہر کیا کہ اس تحریک کی خیبرپختونخوا سے زیادہ افغانستان میں ضرورت ہے کیونکہ وہاں کے مقابلے میں یہاں کی خواتین کچھ حد تک تعلیم یافتہ، سمجھدار اور بااختیار ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے میں خیبرپختونخوا کی خواتین میں بہت مثبت تبدیلی دیکھی گئی ہے، یہ خواتین اب نہ صرف وراثت میں اپنا حصہ مانگتی ہیں بلکہ اپنے دوسرے حقوق پر بھی بہت مشکل سے سمجھوتہ کرتی ہیں, دیہاتی خواتین کو اب بھی اس سلسلے میں بہت سفر کرنا باقی ہے لیکن بدقسمتی سے افغان خواتین نے اب تک یہ سفر شروع ہی نہیں کیا۔
‘کچھ عرصہ پہلے میں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ واک تحریک کے سلسلے میں افغانستان کے ایک گاوں گئی جہاں ہمارا میزبان علاقے کا بڑا سفید پوش اور جاگیردار بندہ تھا۔ اس نے ہمیں بڑا اچھا اور مہنگا کھانا کھلایا اور سب کو کپڑوں کا ایک ایک جوڑا بھی تحفے میں دے دیا۔ وہاں سے نکلتے وقت میں حجرے سے ان کے گھر گئی تو ان کے دو بیووں اور دس بیٹیوں کی حالت دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا’ قندی صافی نے بتایا اور مزید کہا کہ اس جاگیردار کی دوسری بیوی ان کے بڑی بیٹی کے عمر کی تھی اور ان سب خواتین کی کپڑے اور جوتے بھی پٹھے پرانے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ انسانوں والا سلوک ہی نہیں کیا جا رہا۔
‘وہاں سے نکلتے وقت میں نے تحفہ میں دیا گیا جوڑا میزبان کو واپس کرنا چاہا کہ اپنے کسی بیٹی یا بیوی کو دے دیں لیکن دوسرے ساتھیوں نے ایسا کرنے سے منع کردیا’ سماجی کارکن نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اس میں افغانستان کی تمام خواتین کے حالات کی عکاسی ہے اور یہی وہ وجوہات ہیں جن نے ان کو واک تحریک شروع کرنے پر مجبور کیا۔
قندی صافی کا ایک بیٹا ہجرت سے پہلے افغانستان میں پیدا ہوا تھا جبکہ باقی چھ بیٹوں کی پیدائش پاکستان کی ہے اور شاید یہی وہ وجہ ہے کہ وہ اپنے ابائی وطن جانا نہیں چاہتے۔
‘میں اور میرا شوہر واپس اپنے ملک جانا چاہتے ہیں لیکن بچے نہیں مان رہیں اور دوسری بات یہ کہ وہاں اب بھی حالات اتنے اچھے نہیں تو ہم بھی دلوں میں ڈر کی وجہ سے بچوں کو جانے پر مجبور نہیں کررہیں’ انہوں نے کہا۔
افغان خاتون نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے لوگوں کا محبت اور احسان کبھی نہیں بھول سکتی اور پاکستان کو اپنا دوسرا گھر مانتی ہیں لیکن پچھلے چند سالوں سے یہاں کے عوام میں افغان لوگوں کے لئے ایک عجیب نفرت انگیز سوچ دیکھی جا رہی ہیں جس سے ان کا دل انتہائی دکھتا ہے۔
‘پولیس تو چھوڑیں، عام لوگوں کی جانب سے افغان لوگوں کی حراسگی سے ہمارے بچے بہت تنگ آگئے ہیں لیکن پھر بھی افغانستان سے یہ سرزمین اپنے لئے زیادہ پرامن گردانتے اور مانتے ہیں’ انہوں نے بتایا۔
قندی صآفی نے کہا کہ جیسے افغان لوگوں کے بارے میں سوچا جا رہا ہیں وہ خود ویسے پاکستان کی مخالف نہیں ہے ‘ میں کس بنیاد پر پاکستانی ریاست پر تنقید کروں کہ ہمارے اپنے ملک میں ایسے حالات ہیں کہ وہاں زندگی ہی نہیں بتا سکتیں’
واک تحریک کے حوالے سے بھی انہوں نے وضاحت کی کہ یہ بغیر کسی سرحد کے تمام پختون خواتین کے لئے ہیں چاہے وہ پاکستان میں ہوں، افغانستان میں یا دنیا کے کسی اور ملک میں۔
‘چونکہ ماضی میں پختون خواتین نے بہت سی تحریکوں میں حصہ لیا تھا لیکن چونکہ وہ ان کی اپنی تحریکیں نہیں تھی تو اس لئے نہ تو اب تاریخ میں ان کی حوالے سے قابل ذکر بیانات ملتے ہیں اور نہ ہی زیادہ لوگ ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس تحریک سے ہمارا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ سب خواتین اپنے حقوق کے لئے ایک چھتری تلے اکھٹے ہوں اور کل کو ان کے نام اور کارنامے بھی یاد رکھے جائیں’ قندی نے بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ واک تحریک کے لئے ممبران اپنے جیبوں سے چندہ دیتے ہیں اور ان سب کا بنیادی مقصد پختوں معاشرے سے فرسودہ روایات اور غلط رسمیں ختم کریں اور مثبت روایات کو فروغ دے کر دنیا میں پختوںوں کے حوالے سے پھیلے غلط تاثر کو مٹا سکیں۔