"علم ہوتا تو خود ہی اس کا قصہ تمام کرتا کیونکہ مدیحہ میری بھی بیٹی تھی”
عثمان خان
مدیحہ قتل کیس میں کے مرکزی ملزم کی گرفتاری کے بعد علاقے کے سیاسی رہنماؤں اور نو قبائل نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کا گھر مسمار اور پورا خاندان علاقہ بدر کیا جائے۔
مشران نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کا کیس کوئی وکیل نہ لڑے اور قومی اسمبلی میں جو ایکٹ منظور ہوا ہے اس کی ابتدا ہنگو کیس سے کی جائے اور مدیحہ کے قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے۔
اس سلسلے میں گرشتہ روز ہنگو سٹیڈیم ميں سابقہ ممبر قومی اسمبلی حافظ رحیم عمر، سابق ممبر صوبائی اسمبلی پیر حیدر علی شاہ اور ایم پی اے شاہ فیصل چیئرمین ڈی آر سی کی قیادت میں احتجاج ہوا تھا جس میں علاقہ درسمند دلن، ہنگو دوآبہ، ٹل بنگش، خٹک اورکزئی کے نو قبیلوں کے سرکردہ مشران اور عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی۔
یاد رہے کہ سروخیل سے تعلق رکھنے والی مدیحہ ہفتے کی شام سے اپنے گھر سے غائب تھی جس کی تلاش کے لئے ورثاء نے تمام رات بہت کوشش کی لیکن نہیں ملی۔ پولیس کے مطابق اتوار کی صبح گاؤں سے دور جھاڑیوں سے مدیحہ کی لاش ملی تھی۔
گزشتہ روز ہنگو پولیس نے مدیحہ قتل کیس کے مرکزی ملزم کو گرفتار کرلیا۔ ہنگو پولیس کے مطابق گرفتار ملزم کا نام الیاس ولد رحمان گل ہے جس سے واردات میں استعمال ہونے والا پستول بھی بر آمد کر لیا گیا ہے۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملزم الیاس نے جرم قبول کر لیا ہے۔ ملزم الیاس مدیحہ کا چچازاد بتایا جا رہا ہے۔ الیاس کو تفتیش کے لئے کوہاٹ منتقل کردیا گیا ہے۔
آر پی او کوہاٹ ریجن طیب حفیظ چیمہ کی پریس کانفرنس
آج ہنگو میں پریس کانفرنس کے دوران آر پی او طیب حفیظ چیمہ نے کہا ہے کہ مدیحہ قتل کیس کے اصلی اور مرکزی ملزم 18 سالہ الیاس کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ملزم نے کئی دنوں سے مدیحہ کے ساتھ جنسی تشدد کا منصوبہ بنایا تھا، رواں ماہ کی 15 تاریخ کو ملزم بچی کو قریبی کھیتوں میں لے گیا تھا۔
آر پی او کے مطابق ملزم الیاس نے مدیحہ کیساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا جس کے بعد بچی کی چیخ و پکار پر ملزم نے اس کا پہلے گلا دبایا اور پھر تیس بور پستول سے فائر کرکے قتل کر دیا۔
پولیس کے مطابق ملزم مدیحہ کا چچا زاد ہے اور دسویں جماعت کا طالبعلم ہے، ملزم دمے کا مریض بھی ہے اور اس کے علاوہ اس کو کوئی بیماری نہیں ہے۔
ریجنل پولیس آفیسر طیب حفیظ چیمہ نے بتایا کہ اب تک کی تفتیش کے مطابق یہ ملزم کا انفرادی فعل تھا اور اس کیس میں کوئی شخص نہیں شامل، اور یہ کہ ملزم کو آج عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں اسے پولیس کسٹڈی میں دیدیا گیا۔
ٹی این این کیساتھ بات چیت میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے عمران ٹکر نے بتایا کہ مدیحہ قتل کیس میں مرکزی ملزم گرفتار ہوا ہے تو پھر اس کے خاندان کے دیگر افراد بچوں، عورتوں کو دربدر کرنے کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی آئین اور قانون میں اس بات کی کوئی گنجائش ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روایتی طریقوں سے سزا دینے سے معاشرے میں اور بگاڑ پیدا ہوتی ہے، عمران ٹکر نے متعلقہ اداروں ھسے مطالبہ کیا کہ اب اس کیس کو احسن طریقے سے آگے بڑھایا جائے اور پولیس کے ساتھ ساتھ، محمکہ صحت، فرانزک، اور عدلیہ کیس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
انھوں یہ بھی بتایا کہ جب تک معاشرے میں تمام سٹیک ہولڈرز اس ناسور کی روک تام کے لئے مل کر کام نہیں کریں گے تو اس طرح کے کیسز رونما ہوتے رہیں گے۔
ریجنل پولیس آفیسر طیب حفیظ چیمہ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ہنگو میں قانون کی مکمل عمل داری ہے اور کس کو ملزم کے اہل خانہ کے گھر کو مسمار یا علاقہ بدر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ کیس سے گھر کے دوسرے افراد کا کوئی تعلق نہیں اور اگر قانون سے بالاتر کوئی عمل ہوا تو پولیس حرکت میں آئے گی۔
دوسری جانب ملزم کے والد گل رحمان نے ٹی این این کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت میں بتایا کہ ہم پولیس کے ساتھ کیس میں مکمل طور پر تعاون کر رہے ہیں اور میں نے خود اپنے بیٹے الیاس کو پولیس کے حوالے کیا ہے، اگر مجرم ہے تو قانون کے مطابق اسے سزا دی جائے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس کے مطابق اصل ملزم میرا بیٹا ہے تو پھر اس کو قانون کے مطابق ڈیل کیا جائے، ہمارا گھر مسمار کرنے یا علاقہ بدر کرنے کی جو بات ہوئی ہے یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوگی لہذا ہمیں تحفظ دیا جائے۔
گل رحمان کے مطابق ہم تین بھائی ایک مشترکہ گھر میں رہتے ہیں اور میرے بیٹے کی سزا خاندان کے دوسرے افراد کو نہ دی جائے اور اگر مجھے اپنے بیٹے کے اس فعل کے بارے میں علم ہوتا تو پولیس سے پہلے میں اس کا قصہ تمام کرتا کیونکہ مدیحہ میری بھی بیٹی تھی۔
دوسری جانب بچوں سے ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف پشاور میں آج سے سول سوسائٹی اور سماجی کارکنوں کی جانب سے انوکھی بھوک ہڑتال شروع کی گئی ہے۔
یہ ہڑتال پشاور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے ہو رہی ہے جس میں ریپ کا شکار بچیوں کے والدین بھی شرکت کر رہے
ہیں۔
ہڑتال میں شریک افراد کے مطابق کئی سالوں سے ان واقعات کی روک تھام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اب چونکہ چند مہینوں میں اس قسم کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا ہے تو انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ تب تک یہ ہڑتال جاری رکھیں گے جب تک یہ واقعات رک نہ جائیں۔ ’ہم مزید اپنے بچوں کو قتل ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ اسمبلی میں سرعام پھانسی کی قرارداد منظور ہوئی تو اپنے ہی لوگوں نے ان کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردی۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ جس طرح پولیو ہمارے بچوں کو اپاہج بنا رہا ہے اور حکومت کی جانب سے پولیو مہمات ہوتی رہتی ہیں، اسی طرح بچوں کے ریپ کے خلاف بھی حکومت کو بھرپور آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے تاکہ اس گھناؤنے فعل پر قابو پایا جا سکے۔