13 سالہ بچی سے زبردستی شادی کرنے والا ملزم نکاح خواں اور گواہان سمیت گرفتار
سلمان یوسفزے
خیبرپختونخوا کے ضلع مالاکنڈ میں یتیم بچی کے ساتھ زبردستی شادی کرنے والے ملزم اور دونوں کا نکاح پڑھانے والے مولوی کو درگئی لیویز نے گرفتار کر لیا۔
ملاکنڈ لیویز کے تفتیشی افسر محتشم خان کے مطابق 45 سالہ ملزم سبحان الدین نے 13 سالہ نادیہ سے رواں مہینے کی 14 تاریخ کو مبینہ طور پر زبردستی شادی کی تھی اور انہیں آج علاقہ ورتیر میں گرفتار کیا گیا جبکہ نادیہ کو اپنی نانی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ٹی این این سے بات چیت کے دوران محتشم خان نے بتایا کہ ملزم سبحان کا تعلق ضلع دیر کے علاقے چکدرہ سے ہے اور پہلے سے شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ ہے۔
لیویز انوسٹی گیشن افسر نے بتایا کہ نادیہ کے والد کینسر کے مریض تھے جو پچھلے دنوں فوت ہوئے ہیں، متوفی نے اپنے علاج کے لئے ملزم سبحان الدین سے قرض پیسے لیے تھے جس کے بدلے میں ملزم سبحان نے نادیہ سے شادی کرلی۔
ان کا کہنا تھا کہ لیویز اہلکاروں نے ملزم، نکاح کرنے والے پیش امام محمد رحمن اور دو گواہان ظاہر شاہ اور مسعود کو گرفتار کر لیا ہے جس کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے، جرم ثابت ہونے پر ملزم سبحان الدین کو سات سال قید ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم گروپ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ عمران ٹکر نے بتایا کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں جس میں ہمیں زیادہ تر معاشی مسائل کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں اکثر غریب گھرانوں میں زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور والدین ان کی پرورش اور دیگر ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہتا تھا کہ معاشی مسائل کی وجہ سے والدین اپنے گھروں میں لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی پرورش پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اس کے ساتھ لڑکیوں سے جان چھڑانے کے لیے کم عمری میں ہی ان کی شادی اپنے سے زیادہ عمر والے لوگوں سے کرا دی جاتی ہے۔
کم عمری میں شادی کے حوالے سے قانون سازی کے متعلق عمران ٹکر نے کہا کہ پاکستان میں 1929 سے کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے ایک قانون رائج ہے جس کے تحت اس کی سزا ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں عموماً پسماندہ علاقوں میں بچوں کی کم عمری میں شادی کو رسم و رواج کا حصہ سمجھا جاتا ہے، کہیں ’ونی‘ کہیں ’سوارہ‘ تو کہیں کسی اور روایت کے تحت بھی کم عمر بچوں کو بیاہ دیا جاتا ہے لیکن کمزور قانون سازی کی وجہ سے یہ شادیاں کھلے عام ہوتی ہیں۔
عمران ٹکر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بھی بچیوں کی کم عمری میں شادی کے حوالے سے ایک قانون 2012 میں بنایا گیا ہے جو کہ ابھی تک اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ہے، قانون کے تحت کم عمری کی شادی کرانے والے والدین یا نکاح خواں کو تین سال تک قید ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح واقعات معاشرے میں آگاہی اور تعیلم کی کمی وجہ سے رونما ہوتے ہیں کیونکہ اگر ہم اپنے معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی پھیلائیں اور بچوں کو تعلیم دلوائیں تو ممکن ہے کہ اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جا سکے۔