‘سوچا بھی نہیں تھا پشاور میں رات بسر کرنے اور کھانے کی سہولت کبھی مفت بھی ملے گی’
سلمان یوسفزے
"پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں نوکری تو نہیں ملی لیکن شیلٹر ہوم کی صورت میں عارضی ہی سہی، سر چھپانے کے لئے چھت تو میسر آگئی ہے اور اب ان جیسے لوگوں کو فٹ پاتھ پر رات نہیں گزارنا پڑتی۔”
سلمان خان کا تعلق مردان کے علاقے تخت بائی سے ہے جو پچھلے سال بی ایس سی کرنے کے بعد سے نوکری کی تلاش میں کبھی راولپنڈی تو کبھی پشاور میں مارے مارے پھرتے ہیں۔
سلمان خان کا کہنا ہے کہ پشاور میں ان کا کوئی جاننے والا نہیں ہے اور نہ ان کی مالی حالت ایسی ہے کہ کسی ہاسٹل میں کمرہ لے سکیں اس لئے پچھلے دو مہینوں سے سارا دن کام کاج کے سلسلے میں گھومتے پھرتے ہیں اور رات کی تاریکی پھیلنے کے بعد واپس پجگی روڈ پر قائم شیلٹر ہوم ایسے پہنچ جاتے ہیں جیسے یہ ان کا اپنا گھر ہو۔
پجگی روڈ پر قائم شیلٹر ہوم یا پناہ گاہ پشاور میں مجموعی طور پر بنائے جانے والے پانچ پناہ گاہوں میں سے ایک ہے جس کا افتتاح پچھلے سال 14 دسمبر کو وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلٰی محمود خان کے ہمراہ کیا تھا۔
ضلع میں دیگر شیلٹر ہومز کوہاٹ اڈہ، حاجی کیمپ، چارسدہ روڈ اور کارخانوں مارکیٹ میں قائم کئے گئے ہیں جس کا مقصد ان لوگوں کو چھت کی فراہمی یقینی بنانا ہے جو کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
پجگی شیلٹر ہوم کے منتظمین کے مطابق اس میں 200 تک افراد کو ٹھہرانے کا انتظام موجود ہے لیکن فی الحال روزانہ کی بنیاد پر 70 سے 90 افراد ہی آتے ہیں جن کو رات کا کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔
شیلٹر ہوم کے وارڈن لعل رحیم کا کہنا ہے کہ پناہ لینے والوں کے لئے طبی سہولیات اور سردیوں میں کمبل اور گرم پانی کا انتظام بھی موجود ہوتا ہے۔
وارڈن کے مطابق شیلٹر ہوم کو دو بسیں بھی دی گئی ہیں جو شام کے وقت شہر کے مختلف حصوں اور باالخصوص ہسپتالوں سے ان افراد کو یہاں لے آتی ہیں جن کے رات گزارنے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔
خالد الدین بھی ایسے افراد میں شامل ہیں۔ ان کا تعلق چترال سے ہے اور پچھلے کئی دنوں سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اپنی بہن کے علاج کے سلسلے میں مقیم ہیں۔
خالدالدین کا کہنا ہے کہ ان کی بہن کینسر کی مریضہ ہے اور علاج پر کافی رقم خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے اور رات بسر کرنے پر بھی ان کا کافی پیسہ خرچ ہوتا تھا لیکن جب دو ہفتے پہلے کسی سے شیلٹر ہوم کے بارے میں سنا تو رات ہوٹل میں گزارنے کے بجائے شیلٹر ہوم کا رخ کیا اور اسی دن سے مسلسل ہر رات یہاں پر ہی آتے ہیں۔
شیلٹر ہوم منتظمین کے مطابق فیملیز کے لئے اس میں ایک الگ بلاک مختص کیا گیا ہے جہاں مسافر، بیمار اور بے سہارا افراد اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ رات گزار سکتے ہیں۔
خالد کے ساتھ بھی ان کی بیوی بچے موجود ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمام انتظامات سے مطمئن ہیں اور اس شیلٹر ہوم نے ان جیسے لوگوں کا بہت بڑا مسئلہ حل کردیا ہے ‘کیونکہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پشاور میں ایسی کسی زبرست جگہ میں ہم مفت میں نہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی کئی راتیں بسر کرسکتے ہیں اور ساتھ میں ایسے ہی اعلٰی قسم کا کھانا بھی نصیب ہوگا جیسے کسی اچھے ہوٹل میں ہوں۔’
گو کہ پجگی شیلٹر ہوم میں 200 افراد کی گنجائش ہے لیکن اب بھی آدھے سے زیادہ کمرے اور چارپائیاں خالی ہی نظر آتی ہیں، اس حوالے سے منتظمین کا کہنا ہے کہ اس کو کھولے ہوئے ابھی صرف دو مہنے ہوئے ہیں اور جیسے وقت گزرتا جائے گا اس میں رش بھی بڑھتا جائے گا۔
جب وارڈن سے شیلٹر ہوم میں پناہ لینے کے لئے درکار شرائط کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص جو پشاور کا شہری نہیں ہو وہ صرف اپنا شناختی کارڈ ان کو دکھا کر یہاں رات گزار سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک ان کے ریکارڈ کے مطابق زیادہ تر غریب طلبہ اور مزدور لوگ ہی یہاں کا رخ کرے ہیں۔
شیلٹر ہوم میں ایک شخص کو زیادہ سے زیادہ کتنی راتیں گزارنے کی اجازت دی جاتی ہے؟ اس حوالے سے وارڈن کا کہنا کہ ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ ایک شخص روزانہ یہاں رات نہیں گزار سکتا۔
سلمان کی طرح کرک سے تعلق رکھنے والے ادھیڑ عمر رضا خان نے بھی ایک قسم سے شیلٹر ہوم میں مستقل ڈھیرے ڈال رکھے ہیں۔ سلمان خان تو کبھی نوکریوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں تو کبھی مزدوری کرکے گزر بسر کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس رضاخان ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ سیکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کی تنخواہ اتنی نہیں ہے کہ اپنے لئے الگ کمرہ لے سکیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے وہ دفتر ہی کے ایک کمرے میں سوتے تھے لیکن جب سے شیلٹر ہوم قائم ہوا ہے تب سے انہوں نے اسے اپنا گھر سمجھا ہے اور ایک رات چھوڑ کر ہر دوسری رات یہاں پر ہی گزارتے ہیں کیونکہ ان کی ڈیوٹی ہی ایسی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بے گھر افراد کو پناہ دینے کے لئے پناہ گاہوں کا منصوبہ چاروں صوبوں میں شروع کیا ہے۔
حکومت کے مطابق پہلے مرحلے میں صوبوں کے دارالحکومتوں میں یہ پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں جبکہ دوسرے مرحلے میں ڈویژن کی سطح پر بھی قائم کئے جائیں گے۔
پشاور میں قائم کئے گئے پناہ گاہوں میں مجموعی طور پر 410 افراد کی گنجائش ہے اور سوشل ویلفیئر محمکہ کے مطابق یہ تمام پناہ گاہیں ایسی جگہوں پر قائم کی گئی ہیں جہاں پر مسافروں کا آنا جانا زیادہ ہوتا ہے اور یا جہاں پر کھلے آسمان تلے رات گزارنے والے زیادہ نظر آتے ہیں۔