کیا حکومتی گرانٹ جامعہ پشاور کے مالی بحران کا حل ہو سکتی ہے؟
عثمان خان
خیبر پختونخواہ کے سب سے بڑے اور پرانے سرکاری تعلیمی ادارے جامعہ پشاور شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ کچھ روز قبل یونیورسٹی انتظامیہ نے صوبائی حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ ملازمینوں کو اس ماہ کی تنخواہ اور پنشن نہیں دے سکتے، ليکن آج صوبائی حکومت نے جامعہ کیلئے 250 میلن گرانٹ کی منظوری دی ہے۔
چند دن پہلے اسی بابت پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آصف خان کی جانب سے وزیر اعلیٰ محمود خان کو خط لکھا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی نے گذشتہ کئی مہینوں سے صوبائی حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو متعدد بار یاددہانی کرائی کہ یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے اور انہیں بیل آؤٹ پیکج دیا جائے لیکن حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا کہ یونیورسٹی کے اکاؤنٹس میں صرف چھ کروڑ روپے رہ گئے ہیں جبکہ ایچ ای سی کی جانب سے گرانٹ کی مد میں 13 کروڑ باقی ہیں تو یونیورسٹی کے پاس ٹوٹل 19 کروڑ روپے موجود ہیں جبکہ یونیورسٹی کو 20 کروڑ روپے مزید درکار ہیں تاکہ ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن ادا کی جا سکیں۔
آج خیبر پختونخواہ حکومت نے یونیورسٹی آف پشاور کو گرانٹ فراہم کیا ہے، مالی گرانٹ کی منظوری خیبر پختونخواہ کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جگھڑا، ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے سکریٹری ارشاد خان او وی سی ڈاکٹر آصف خان پر مشتمل اعلی سحی اجلاس کے دوران دی گئی۔ اجلاس کے دوران وائس چانسلر ڈاکٹر آصف خان نے صوبائی وزیر خزانہ کو درپیش مالی بحران سے آگاہ کیا، ڈاکٹر آصف نے کہا کے مالی بحران کی بڑی وجہ سابقہ حکومتوں کے دوران یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات میں اضافی عملے کی بھرتی ہے۔ انھوں نے کہا کے ایک اور وجہ مختلف تدریسی اور انتظامی عملے کو ملنے والے الاؤنس اور غیر ضروری اخراجات بھی ہیں۔
صوبائی وزیر خزانہ نے یونیورسٹی انتظامیہ پر زور دیا کہ غیر ضروری اخراجات کو روکے جس میں اضافی الاؤنس کی فراہمی بھی شامل ہے۔
اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ صوبائی حکومت یونیورسٹی کو 250 میلین روپے کی گرانٹ فراھم کرے گی، پہلے مرحلے میں سو ملین روپے فوری طور پر جاری کیے جائیں گے اور بقایا 150 ملین روپے انے والے دنوں میں جاری کیے جائیں گے۔
یونیورسٹی ملازمین کو تنخواہ جاری
ٹی این این کے ساتھ ٹیلی فونک بات چیت کے دوران پشاور یونیورسٹی کے ترجمان پروفیسر علی عمران بنگش نے بتایا کہ انتظامیہ نے آج گریڈ ایک سے سولہ تک ملازمین کو تنخواہیں جاری کی گئی ہیں جبکہ گریڈ سترہ سے اوپر کے ملازمین کو پے سلپ فراہم کردی گئی ہے اور ہمارے ساتھ جو باقی فنڈز تھے ان سے بعض اساتذہ کو بھی تنخواہ منتقل ہوئی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے بھی اس موقف کا اظہار کیا تھا کہ یونیورسٹی ملازمین کو ستر فیصد تنخواہ فراہم کرسکتی ہے لیکن پیوٹا نے اس کو مسترد کیا تھا۔
ترجمان یونیورسٹی نے یہ بھی بتایا کہ انتظامیہ نے اندرونی باروونگ (ادھار) سے ملازمین کو تنخواہ فراہم کی ہیں اور یہ کہ صوبائی حکومت کی گرانٹ سے مالی بحران ختم ہو جائے گا۔
پروفیسر علی عمران بنگش نے یہ بھی بتایا کے ہم یونیورسٹی کو آنے والے وقت میں مالی بحران سے نکالنے کیلئے اصلاحات کریں گے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی وجود میں آئی ہے جس کا نام ریسورس منیجمنٹ اینڈ موبالائیزیشن کمیٹی (آر ایم ایم سی) ہے اس کمیٹی میں پرو وائس چانسلر، تمام شعبہ جات کے ڈینز، رجسٹرار اور تمام یونینز کے صدر شامل ہیں۔
یہ کمیٹی اپنی سفارشات فوری طور پر یونیورسٹی انتظامیہ کو پیش کرے گی جن پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
یونیورسٹی مالی بحران کا شکار کیوں؟
وزیراعلی کو ارسال کئے گے خط میں بتایا گیا ہے کہ سال 2006 سے 2019 تک یونیورسٹی کی گرانٹ میں 113 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں 270 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اسی طرح پینشن کی مد میں رقم کی ادائیگی میں سال 2006 کے مقابلے میں 2019 تک 979 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اس حوالے جامعہ کے ترجمان علی عمران بنگش نے بتایا کہ سال 2006 میں یونیورسٹی کو 72 کروڑ روپے دیے گئے تھے جبکہ 2019 میں یہ رقم ایک ارب 54 کروڑ روپے سے زیادہ ہوگئی تاہم دوسری جانب ملازمین کی تنخواہیں ایک ارب 73 کروڑ روپے جبکہ پینشن کی رقم سال 2006 میں آٹھ کروڑ سے بڑھ کر 2019 میں 90 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے۔
متعلقہ خبریں:
"جامعہ پشاور شدید مالی بحران کی زد میں، فروری کی تنخواہیں دینے سے قاصر ہیں”
جامعہ پشاور کیلئے ایک ارب روپے کے بیل آؤٹ پیکج کا مطالبہ
علی عمران نے بتایا: ’سال 2006 کے مقابلے میں 2019 میں تنخواہوں اور پینشن کی مد میں اضافہ دو ارب روپے سے زائد ہے لیکن یونیورسٹی کی گرانٹ میں 82 کروڑ تک اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی معاشی بحران کا شکار ہے۔‘
پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر آصف خان نے مالی خسارے کے حوالے سے اپنے ایک انٹریو میں کہا ہے کہ حکومت نے زیادہ تر پرائیویٹ امتخانی پروگرام بند کیے ہیں جس کی وجہ یونیورسٹی کو بہت مالی نقصان پہنچا ہے، اس کے علاوہ انھوں یہ بھی کہا کہ حکومت ہر سال مالی بجٹ میں ملازمین کی تنخواہ بڑھاتی ہے لیکن یونیورسٹی کو اس مد میں اضافی فنڈ نہیں ملتے۔
وی سی یونیورسٹی نے یہ بتایا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی 2008 میں پشاور یونیورسٹی سے علیحدہ ہوئی ہے لیکن اب بھی پشاور یونیورسٹی اس کے 263 ملازمین کو تنخواہ اور پنشن فراہم کرتی ہے جو ہم پر ایک اضافی بوجھ ہے اور حکومت اس پر نوٹس نہیں لیتی باربار نشاندھی کے باوجود۔
پشاور یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی یشن (پیوٹا) کے صدر ڈاکٹر فضل ناصر کے مطابق ہم چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومت اور تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مالی بحران کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ مستقبل میں بھی بحران کا خدشہ ہے۔
انھوں نے بتایا کے یونیورسٹی پیسے کمانے کیلئے نہیں ہوتی بلکہ حکومت اس پر انوسمنٹ کرتی ہے ملک کے مستقل کی تیاری پر یہ خرچہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فضل ناصر نے بتایا کہ حکومت نے یونیورسٹی پر بہت قدعنیں لگائی ہیں جسا کہ پشاور یونیورسٹی پشاور ڈویژن کے اندر صرف کالجز کو الحاق کی سہولت دے سکتی ہے اس سے باہر نہیں جو کہ مالی بحران کا ایک جزو ہے۔
انھوں بتایا کہ بی ایس پروگرام کی وجہ سے بھی یونیورسٹی پر اثر پڑا ہے، وسائل کم ہیں اور بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔