جامعہ پشاور شدید مالی بحران کی زد میں، فروری کی تنخواہ دینے سے قاصر ہیں، وائس چانسلر
خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی سرکاری درسگاہ ”یونیورسٹی آف پشاور” نے صوبائی حکومت کو خط ارسال کیا ہے کہ یونیورسٹی شدید مالی بحران کی وجہ سے فروری کے مہینے سے اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن نہیں دے پائے گی، اس لئے یونیورسٹی کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے گرانٹ کی منظوری دی جائے۔
پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آصف خان کی جانب سے وزیر اعلیٰ محمود خان کو لکھے گئے خط میں لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی نے گذشتہ کئی مہینوں سے صوبائی حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو متعدد بار کہا ہے کہ یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے اور ان کے لیے بیل آؤٹ پیکیج دیا جائے لیکن حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے اکاؤنٹس میں صرف 6 کروڑ روپے رہ گئے ہیں جبکہ ایچ ای سی کی جانب سے گرانٹ کی مد میں 13 کروڑ باقی ہیں تو یونیورسٹی کے پاس ٹوٹل 19 کروڑ تک موجود ہیں جبکہ یونیورسٹی کو مزید 20 کروڑ روپے درکار ہیں جس سے وہ ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن ادا کر سکے۔
خط میں تفصیلات دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ سال 2006 سے 2019 تک یونیورسٹی کی گرانٹ میں 113 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ملازمین کی تنخواہوں میں 270 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اسی طرح پنشن کی مد میں رقم کی ادائیگی میں سال 2006 کے مقابلے میں 2019 تک 979 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے ترجمان علی عمران بنگش کے مطابق سال 2006 میں یونیورسٹی کو 72 کروڑ روپے دیئے گئے تھے جبکہ 2019 میں یہ رقم ایک ارب 54 کروڑ روپے سے زیادہ ہوگئی تاہم دوسری جانب ملازمین کی تنخواہیں ایک ارب 73 کروڑ روپے جبکہ پنشن کی رقم سال 2006 میں 8 کروڑ سے بڑھ کر 2019 میں 90 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سال 2006 کے مقابلے میں 2019 میں تنخواہوں اور پنشن کی مد میں اضافہ دو ارب روپے سے زائد ہے لیکن یونیورسٹی کی گرانٹ میں 82 کروڑ تک اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی معاشی بحران کا شکار ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ طلبہ کی فیسیں بھی تو ہر سال بڑھتی ہیں تو اس سے جو پیسے آتے ہے اس سے اخراجات پورے نہیں ہوتے؟ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی قوانین کے مطابق نئے داخل شدہ طلبہ کی فیس میں ہر سال 10 فیصد کا اضافہ ضرور ہوتا ہے لیکن جب کوئی طالب علم داخل ہو جائے تو بی ایس ڈگری میں 4 سال تک اور 2 سالہ ڈگری میں 2 سال تک ان کی فیس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے اخراجات فیسوں سے پورے نہیں کیے جاتے۔
یونیورسٹی کے اندر پولیس سٹیشن کے بارے میں علی عمران نے بتایاکہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے اندر تھانے کے اخراجات یعنی بجلی، گیس وغیرہ کے بل یونیورسٹی ادا کرتی ہے جن پر سالانہ 10 کروڑ تک کا خرچہ آتا ہے تو اگر حکومت اسی تھانے کے اخراجات پولیس ڈپارٹمنٹ کے ذریعے ادا کروائے تو 10 کروڑ یونیورسٹی کو بچت ہوگی۔