بونیر میں ماربل سٹی کا قیام، خواب یا حقیقت؟
عثمان خان
ضلع بونیر میں عرصہ دراز کے بعد ماربل سٹی کے قیام کے امکانات روشن ہوئے ہیں، خیبر پختونخواہ حکومت کے مطابق دو ماہ میں باقاعدہ طور پر زمین کی خریداری کا عمل شروع کرتے ہوئے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
ٹی این این کیساتھ حصوصی نشت میں وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے پبلک ھیلتھ ریاض خان نے بتایا کہ مالی سال 2019-20 کے بجٹ میں بونیر ماربل سٹی کی شروعات کیلے پچاس کروڑ روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے جس سے زمین کی خریداری کا عمل شروع کیا جائے گا۔
یاد رہے کے خیبر پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے دور حکومت میں اس وقت کے سپیکر صوبائی اسمبلی بخت جہان خان نے ماربل سٹی کی منظوری دی تھی اور اس کے بعد مختلف ادوار میں اس منصوبے کیلے بجٹ بھی محتص کیا گیا مگر یہ منصوبہ ابھی تک سیاست کی نذر رہا اور عملی کام اس پر شروع نہیں ہو سکا۔
منصوبے کے بجٹ کے حوالے سے ٹی این این کے ساتھ بات چیت میں بونیر ماربل ایسوسی ایشن کے صدر مراد علی خان نے بتایا کہ ماربل سٹی کے قیام کا اعلان تو متعدد بار ہوا ہے لیکن جب عملی کام کا وقت آجاتا ہے تو صوبے کے طاقتور وزیراعلی یا وزارء اس اہم منصوبے کے فنڈز اپنے انتخابی حلقوں کو منتقل کر دیتے ہیں اور یوں یہ منصوبہ ادھورا رہ جاتا ہے۔
وزیراعلی کے معاون خصوصی ریاض خان نے بتایا کہ ماربل سٹی کیلئے دو مقامات کی نشاندھی کی گئی تھی، ایک تو سلارزئی تحصیل کا علاقہ کنگر گلی اور دوسری جگہ امبیلہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخواہ اکنامک زون اتھارٹی کے اعلی حکام نے دونوں سائٹس کا دورہ کیا ہے، واٹر ٹیبل اور ضروری جزیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ہفتے یا دس دنوں میں منصوبے کیلئے سائٹ کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
موجودہ وقت میں ضلعی انتظامیہ کے اقدامات اور چیلنجز
بونیر میں موجودہ وقت میں 418 ماربل کی فیکٹریاں ہیں جن میں باقاعدہ طور پر ماربل کی کٹنگ ہوتی ہے اور مال تیار کیا جاتا ہے، 95 فیصد تک کارخانے ضلع کی ڈگر تحصیل میں واقع ہیں اور ماربل کی کانیں بھی اسی علاقے میں آتی ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر ڈگر لطیف الرحمن کے مطابق کچھ عرصے سے ضلعی انتظامیہ کو منصوبے کے حوالے سے مشکلات درپیش تھیں کیونکہ سلارزئی کے عوام نہیں چاہتے تھے کہ اپنی جائیداد اس منصوبے کیلئے دیں لیکن انتظامیہ نے تحمل سے کام لیتے ہوئے اس مد میں مقامی مشران کیساتھ باقاعدہ طور پر جرگے کئے اور ذہن سازی کر کے مقامی لوگوں کو منصوبے کیلئے زمین دینے پر راضی کیا کیونکہ ماربل سٹی کے قیام سے مقامی افراد کو کاروبار اور نوکریاں دستیاب ہوں گی۔
اسسٹنٹ کمشنر کے بقول زمین کی خریداری کیلے انتظامیہ نے علاقے میں سیکشن فور نافذ کیا ہے لیکن اب بڑی رکاوٹ فنڈز کا اجراء ہے کیونکہ صوبائی حکومت مالی مشکلات کا شکار ہے اور ابھی تک زمین کی خریداری کیلئے فنڈز جاری نہیں کیے جا سکے جبکہ مقامی لوگ اب اس انتظار میں ہیں کہ ان کو رقوم کی ادائیگی شروع کی جائے۔
اے سی لطیف الرحمن کے مطابق بونیر ماربل سٹی کیلے مجموعی طور پر 1052 کنال زمین خریدی جائے گی، اگر صوبائی حکومت منصوبے کیلے فنڈز جاری کرے تو دو ماہ میں زمین کی خریداری کا عمل مکمل کیا جائے گا اور اس کے بعد خیبر پختونخوا اکنامک زون اتھارٹی باقاعدہ طور پر ماربل سٹی پر کام شروع کرے گی لیکن یہ کام اتنا بھی آسان نہیں کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے پر تین چار سال لگ سکتے ہیں اور تقریباً چھ سے سات ارب روپے لاگت آئے گی۔
بونیر میں آخر کار ماربل سٹی کے قیام کی ضرورت کیوں؟
بونیر کی مشہور ماربل صنعت مقامی آبادی کیلئے وبال جان بن گئی ہے جس کی وجہ سے فضائی و آبی آلودگی میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ماربل کی کانوں میں بارود کے استعمال سے اگر ہوا کی حدت/گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب کارخانوں کا فضلہ بھی نالوں میں گرایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانی و آبی حیات بلکہ زرعی اراضی بھی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔
بونیر میں ماربل کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق ضلع میں اس وقت ماربل کی تین سو کے قریب کانیں جبکہ 430 کارخانے چالو حالت میں ہیں جہاں سے روزانہ کی بنیاد پر ٹنوں کے حساب سے ماربل ملک کے مختلف علاقوں کو سپلائی کیا جاتا ہے تاہم بدقسمتی سے یہ سارے کارخانے بغیر کسی منصوبہ بندی کے قائم کیے گئے جو لوگوں کیلئے فائدے کی بجائے نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی کیساتھ بونیر کی سڑکیں بھی اوور لوڈںگ کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہیں اور آئے روز اس وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں کیونکہ ٹرکوں میں لوڈ زیادہ ہوتا ہے اور بڑے پتھر گرنے سے جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔
بونیر کے ماحول پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ بغیر منصوبہ بندی کے کارخانوں کے قیام نے مسئلہ کھڑا کیا ہے، جسے جہاں خالی جگہ ملی وہاں اس نے کارخانہ کھڑا کر دیا اور یہ نہیں دیکھا کہ آبادی کے بیچوں بیچ ہے یا اس کے آس پاس نالے گزرتے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا، "ان کارخانوں سے خارج ہونے والے پانی نے مختلف قسم کے کیمیکلز کی وجہ سے دودھ کی طرح سفید رنگ اختیار کر رکھا ہے جو براہ راست نالوں میں گرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کارخانوں کے آس پاس دودھ کی نہریں بہتی نظر آتی ہیں جو درحقیقت زہریلی مٹی ہوتی ہے۔”
ادارہ تحفظ ماحولیات (ای پی اے) کے قوانین کے مطابق ہر کارخانے کیلئے استعمال شدہ پانی براہ راست نالوں میں خارج کرنے سے قبل ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزارنا لازمی ہوتا ہے جہاں اس سے کیمیکلز کو الگ کیا جاتا ہے تاہم فضل الرحمان الزام عائد کرتے ہیں کہ بیشتر کارخانے اس سلسلے میں ای پی اے کے احکامات کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہیں اور پانی صاف کرنے کی ٹینکی نہیں لگائی ہوتی۔
"اگر کسی کارخانے میں یہ ٹینکی لگی بھی ہوتی ہے تو وہ بھرتی تو بہت جلد ہے لیکن اس کی صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔”
بونیر میں ماربل کے زیادہ تر کارخانے سلارزئی اور ڈگر تحصیل میں ہیں جہاں سے نکلنے والا یہ دودھیلا اور گندہ پانی مقامی نالوں سے گزرتے ہوئے برندو کے بڑے نالے میں گرتا ہے۔
برندو نالے کی گندگی کا بخوبی احساس دیوانہ بابا علاقے میں ہوتا ہے جہاں یہ نالہ چغرزو سے آنے والے نالے کے ساتھ جا ملتا ہے۔
ریاض خان نے ٹی این این کے ساتھ نشت میں بتایا کہ بونیر ماربل سٹی وقت کی ضرورت ہے اور میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ پی ٹی آئی کے اس دور حکومت میں یہ بڑا منصوبہ شرمندہ تعبیر ہو جائے کیونکہ ہمارا مقصد اپنے عوام کو کاروبار دینے کے ساتھ ساتھ صاف اور پاکیزہ ماحول دینا اور اپنے پانی کو آلودگی سے بچانا بھی ہے۔
بونیر ماربل ایسوسی ایشن بھی صوبائی حکومت سے یہی مطالبہ کرتی ہے کہ ماربل کارخانوں کو ماربل سٹی میں جمع کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے، ایک جگہ پر فیکٹریوں کو بجلی کی علیحدہ لائن مل جائے گی اور آلودگی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا کیونکہ آئے روز لوگ عدالتوں میں کارخانہ داروں کیخلاف کیس دائر کرتے رہتے ہیں۔