خیبر پختونخوا میں لاکھوں لڑکیاں سکول سے باہر، کم عمری کی شادی تعلیم میں رکاوٹ
خیبرپختونخوا میں سول سوسائٹی تنظیموں نے وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور وزیر ایلیمینٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اکبر ایوب سے مطالبہ کیا ہے کہ آرٹیکل 25-A کے دائرہ کار میں اضافے کے ساتھ ہرپاکستانی بچے کے لئے کم از کم 12 سال کی مفت ، لازمی اور معیاری تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 24 جنوری کو امن اور ترقی کے لیے تعلیم کے کردار کے طور پرمنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے آج خیبرپختونخوا کی سول تنظیموں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔
سول سوسائٹی تنظیموں کے نمائندوں نے خیبر پختونخوا حکومت کے تعلیمی ترقیاتی بجٹ کا 70 فیصد لڑکیوں کی تعلیم کی طرف موڑنے کے حالیہ اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس اقدام سے صوبے میں ہر سطح پر مزید لڑکیوں کو سکولوں کی طرف لانے میں اہم کردار ادا ہوگا۔ سول سوسائٹی کے نمائندوں نے دیگر صوبوں پر زور دیا کہ وہ خیبر پختونخوا کی مثال پرعمل کریں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کو ترجیح دی جاسکے۔
تقریب میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بلیو وینز ادارے کے پروگرام کے کوآرڈینیٹر قمرنسیم نے کہا "معاشی ترقی ، نوجوان خواتین اور مردوں کے لئے مہارتوں اور مواقع کو بہتر بنانے اور 17 پائیدار ترقیاتی اہداف پر پیشرفت کو غیر مقلد کرنے کا سب سے زیادہ مؤثر ترین طریقہ تعلیم میں سرمایہ کاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ” آج لاکھوں لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔ ان کو غربت ، تشدد اور کم عمری کی شادی تعلیم حاصل کرنے سے روک رہی ہے۔ پائیدار ترقیاتی اہداف ایک وعدہ تھا کہ ہم ان لڑکیوں کے ساتھ لڑیں گے لیکن اب تک ہم ناکام ہو چکے ہیں۔ ہمارے بڑے اہداف ہیں لیکن جب تک ہم لڑکیوں کو تعلیم نہیں دیتے ہم ان میں سے کسی تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اگر ہم معیشت کو بڑھانا چاہتے ہیں ، اپنی سانس لینے والی ہوا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، امن کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور صحت عامہ کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں لڑکیوں پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔
اس دوران بتایا گیا کہ پاکستان میں 5 سے 16 سال کے درمیان 50.8 ملین بچے ہیں جن میں سے 22.8 ملین سکولوں سے باہر ہیں۔ پاکستان میں سکول سے باہر جانے والے ان بچوں میں سے 13 ملین یا 53 فیصد لڑکیاں ہیں۔ لڑکوں کے مقابلے میں ہر سطح پر لڑکیوں کے لئے کم سکول ہیں۔ مثال کے طور پر، محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کی سالانہ سکول مردم شماری کی رپورٹ 2017 – 18 کے مطابق، لڑکوں کے 12586 پرائمری سکولز کے مقابلے میں لڑکیوں کے 8594 سکول، صوبے میں لڑکوں کے لئے 1475 مڈل سکول اور 1422 ہائی سکول ہیں جبکہ اس میں صرف لڑکیوں کے لیے 1198 مڈل سکول اور 805 ہائی سکولز ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں 5،538 سیکنڈری سکول ہیں جن میں صرف 39 فیصد لڑکیاں ہیں۔
اس دوران اُجالا نیٹ ورک کی صوبائی کوآرڈینیٹر ثناء احمد نے کہا کہ لڑکیوں کو صحت مند اور خوشگوار زندگی گزارنے کا موقع لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کافی وجوہات ہونی چاہیئے تاہم مجموعی طور پر معاشرے کے لئے بھی اہم فوائد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک تعلیم یافتہ عورت میں صلاحیتیں ، معلومات اور خود اعتماد ہوتی ہے جو اسے بہتر والدہ، کارکن اور شہری بننے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
اس موقع پر شاوانا شاہ جوکہ لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے اور د ہوا لور کے ساتھ منسلک ہے کا کہنا تھا کہ تعلیم میں سرمایہ کاری کے بہت اچھے نتائج ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے بہتر تعلیم کے مواقعوں سے غربت میں کمی آسکتی ہے، معاشی خوشحالی کو فروغ مل سکتا ہے اور امن وسلامتی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔