گلبدین حکمت یار کا نواسا عبیداللہ بہیر اپنے نانا کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہتا
افغانستان کے جنگی سردار گلبدین حکمت یار کے نواسے عبیداللہ بہیر اپنے نانا کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہتے۔ وہ امن اور مفاہمت کی پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے افغانستان کے مستقبل کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے گلبدین حکمت یار کے نواسے عبید اللہ بہیر نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے تلخ تاریخ کو بھولنا چاہتے ہے وہ امن اور مفاہمت کا راستہ اپنانا چاہتے ہے، عبید اللہ امریکن یونیورسٹی آف افغانستان میں ٹرانس نیشنل جسٹس کا مضمون پڑھانا چاہتے ہیں۔
‘ کئی افراد نے مجھ سے پوچھا کہ میں اپنے نانا سے کیسے محبت کرسکتا ہوں یہ جانتے ہوئے کہ لوگ انکے کاموں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ سیاست میں ان کا ماضی کیسا بھی ہو میں یہ حقیقت تبدیل نہیں کرسکتا کہ وہ میرے نانا ہے اور یہ کہ انہوں نے مجھ سے پیار کیا ہے اور میرا خیال بھی رکھا ہے’
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء جاری ہے، گزشتہ ہفتے امریکہ نے سب سے اہم اڈے بگرام ایئربیس کو افغان حکام کے حوالے کردیا، عبید اللہ کے والد غیرت بہیر اسی اڈے کی جیل میں قید رہ چکے ہیں وہ بھی حکمت یار کی طرح افغانستان میں بین الاقوامی افواج کی موجودگی کے خلاف تھے۔ حکمت یار کے نواسے کہتے ہے کہ ایک وقت تھا جب وہ بھی امریکہ سے نفرت کرتے تھے’ ہم ایک ایسی دنیا میں بڑھے جہاں امریکہ دشمن تھا، ہم وہ لوگ تھے جنہوں نے شروع کے دنوں میں القاعدہ کی حمایت کی اور پھر میرے والد کو ساڑھے چھ سال مجھ سے دور رکھا گیا اس طرح میں بھی بہت ناراض ہوا اور مغرب سے نفرت کرنے لگا مجھے ان خیالات سے پیچھا چڑانے میں مجھے بہت وقت لگا’
عبید اللہ کے لیے مستقبل کا راستہ صاف ہے وہ راستہ ہے امن اور مفاہمت کا۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان ایک نیا رشتہ قائم ہو’ اگر نئی نسل بھی وہی کریں گی جو انکے بڑوں نے کیا تھا تو افغانستان میں کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آئے گی، ہمیں خود کو تلاش کرنا ہے ماضی سے سیکھنا ہے لیکن ماضی کا حصہ نہیں بننا میں انہی خیالات کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہوں۔
عبید اللہ نے پاکستان میں پرورش پائی وہ 2018 میں صدر اشرف غنی اور حکمت یار کے عملی سمجھوتے کے بعد کابل آئے اور امریکہ کے ساتھ مفاہمت کا ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے امریکی یونیورسٹی میں پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا۔
عبید اللہ پر امید ہے کہ افغانستان میں امن آئے گا لیکن انہیں خدشہ ہے کہ اگر سیاسی نظام درہم برہم ہوگیا تو انکا ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ ‘ میں مختلف خیالات رکھنے والے طلباء جو میرے نانا کے خلاف ہے کو سمجھاتا ہوں کہ میں اپنے نانا کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتا ، میں انکے ماضی کی نمائندگی نہیں کرتا، میں تسلیم کرتا ہوں اس تنازعے کے تمام فریقوں نے غلط کیا اور یہ سب سے خطرناک بات ہے کہ تنازعات میں لوگ وہ کام کرتے ہیں جو انہیں نہیں کرنا چاہیئے۔