بین الاقوامی

برطانیہ: کورونا وائرس کی ویکسین کی انسانوں پرآزمائش کا عمل شروع

برطانیہ میں کورونا وائرس کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا عمل شروع کردیا گیا۔ یہ یورپ میں کورونا ویکسین کی انسانوں پر پہلی آزمائش ہے البتہ امریکا اس سے قبل مارچ کے مہینے میں کورونا ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کرچکا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی جانب سے تیار کی گئی ویکسین دو رضاکاروں کو بذریعہ انجیکشن دے دی گئی۔

اس آزمائشی پروگرام میں شمولیت کے لیے آکسفورڈ نے 18 سے 55 سال تک کے وائرس سے متاثرہ افراد سے درخواستیں طلب کی تھیں جس کے بعد 800 رضاکاروں کو منتخب کیا گیا ہے جن میں سے ایک خاتون اور ایک مرد کو آج ویکسین دی گئی ہے۔

اس پروگرام کے تحت نصف رضاکاروں کو کورونا وائرس کی ویکسین دی جائے گی جبکہ نصف کو کورونا کے بجائے گردن توڑ بخار کی ویکسین دی جائے گی تاہم رضاکاروں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ انہیں کون سی ویکسین دی گئی ہے البتہ ڈاکٹرز کے پاس اس کا ریکارڈ ہوگا۔

ایلیسا گراناٹو پہلی یورپی رضاکار ہیں جنہیں کورونا ویکسین لگائی گئی اور وہ خود بھی سائنسدان ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ خود سائنسدان ہیں لہٰذا ان کی خواہش تھی کہ وہ اس سائنسی عمل کا حصہ بنیں۔ یہ ویکسین 3 ماہ کے قلیل عرصے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سارہ گلبرٹ کی سربراہی میں کام کرنے والی ٹیم نے تیار کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ذاتی طور پر انہیں اس ویکسین سے کافی امید ہے۔

اس ویکسین کی تیاری میں بَن مانسوں میں عام سردی کھانسی کا باعث بننے والے کمزور وائرس (ایڈینو وائرس، دوہرے میعار والے ڈی این اے پر مشتمل وائرسز کے گروہوں میں سے ایک گروہ جو ممالیہ جانوروں میں سانس لینے میں دشواری زکام وغیرہ جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے) کو استعمال کیا گیا تاہم اس میں جینیاتی تبدیلی کی گئی تاکہ یہ انسانی جسم میں داخل ہوکر نشونما پاسکے۔

آکسفورڈ کی ٹیم اس سے قبل کورونا وائرس سے ملتے جلتے وائرسز جیسے مڈل ایسٹ ریسپرائٹری سنڈروم (مرس) کی ویکسین بھی اسی طریقہ کار کے تحت بناچکے ہیں اور کلینکل ٹرائلز میں اس کے کافی حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔

ویکسین کام کررہی ہے یا نہیں یہ جاننے کا واحد راستہ برطانیہ میں کورونا وائرس کی موجودہ لہر کے برقرار رہنے میں ہے کیوں کہ سائنسدان آنے والے مہینوں میں وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد اور ویکسین سے صحتیاب ہونے والے افراد کے تناسب کا جائزہ لیں گےاور اگر اچانک سے برطانیہ میں وائرس کے کیسز کم ہوگئے تو پھر یہ جاننا مشکل ہوجائے گا کہ آیا ویکسین مؤثر ہے یا نہیں۔

کیسز کم ہونے کی وجہ سے سائنسدانوں کے پاس تقابلی جائزے کیلئے ناکافی ڈیٹا ہوگا۔آکسفورڈ ویکسین گروپ کے ڈائریکٹر، پروفیسر اینڈریو پولارڈ کا کہنا ہے کہ ہم اس وباء کی موجودہ لہر کے آخری سِرے کا تعین کررہے ہیں اگر ہم اس میں ناکام رہے تو ہم آنے والے مہینوں میں یہ نہیں بتاسکیں گے کہ ویکیسن کارآمد ہے یانہیں البتہ ہم  پُرامید ہیں کہ مستقبل میں کورونا کے مزید کیسز سامنے آئیں گے کیوں کہ وائرس ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے۔

خیال رہے کہ دنیابھرمیں کورونامریضوں کی تعداد 26لاکھ 97ہزار316 ہوگئی ہے جبکہ دنیا بھر میں کورونا سےہلاکتوں کی تعداد 1لاکھ88ہزار857ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں کورونا کے 7لاکھ 39ہزار945مریض صحت یاب بھی ہوچکےہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button