افغان طالبان کا مخلوط حکومت میں شمولیت پر آمادگی کا اظہار
مانیٹرنگ ڈیسک
افغان طالبان نے افغان دھڑوں کے ممکنہ مذاکرات میں اتفاق رائے کی صورت میں تشکیل پانے والی مخلوط حکومت میں شمولیت پر اصولی طور پر آمادگی کا اظہارکیا ہے۔
امریکا اور افغان طالبان کے مابین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے امن معاہدے میں طالبان نے افغان سرزمین دہشتگردوں کو استعمال نہ کرنے کی ضمانت دی ہے،باقی شرائط کے مطابق امریکا اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گا،فریقین ایک دوسرے کے قیدی رہا کردیں گے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن پر فریقین نے اتفاق تو کیا ہے لیکن انھیں معاہدے کا حصہ نہیں بنایا گیا ان میں ایک یہ بھی ہے کہ طالبان نے انٹرا افغان مذاکرات کے دوران تمام گروپوں پر مشتمل مخلوط حکومت میں شمولیت پر رضا مندی ظاہرکردی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ طالبان تقریباً ڈیڑھ سال جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران مخلوط حکومت میں شمولیت پر آمادہ نہیں ہورہے تھے تاہم امریکا کے علاوہ پاکستان اورامن عمل میں شامل دیگر ممالک نے اس بات پر قائل کرلیاکہ وہ افغانستان میں بننے والی مخلوط حکومت کا حصہ بنیں تاہم طالبان کا کہنا تھا کہ وہ اس شرط پر مخلوط حکومت میں شامل ہوں گے جب صدر اشرف غنی متنازع الیکشن کے ذریعے اپنی5 سالہ مدت پوری کرنے پر اصرار نہیں کریں گے۔
طالبان کی اس شرط کے بعد افغانستان کے بارے میں خصوصی امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد کو امن معاہدے پر دستخطوں سے 2 روز قبل دوحہ سے کابل جانا پڑا اور انہوں نے صدر اشرف غنی پر دباؤڈالا کہ وہ نئے انتخابات میں اپنی کامیابی کے بعد حلف برداری کی تقریب ملتوی کردیں۔ اب افغان مسئلہ کے دیرپا حل کیلیے تمام نظریں انٹرا افغان ڈائیلاگ پر لگی ہوئی ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں گزشتہ 18 برس سے جنگ جاری رہے اور اس وقت امریکا کے 13 ہزار اور نیٹو کے ہزاروں فوجی موجود ہیں۔
یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان تقریبا ایک سال سے جاری مذاکرات ستمبر 2019 میں اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوگئے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی جانب سے مبینہ تشدد کو جواز بناتے ہوئے اس عمل کو ‘مردہ’ قرار دے دیا تھا لیکن اس کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات بحال ہوگئے اور اب امن معاہدے پربھی دستخط ہوچکے ہیں۔