چین میں کورونا سے مزید 118 ہلاکتیں، 889 نئے مریض سامنے آ گئے
چین میں کورونا وائرس سے مزید 118 افراد ہلاک ہو گئے، مہلک وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 2236 ہو گئی جبکہ متاثرہ افراد کی تعداد 76 ہزار تک پہنچ گئی، دوسری جانب جنوبی کوریا میں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت سامنے آئی ہے۔
چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، مزید 118 افراد کی ہلاکت کے بعد مرنے والوں کی تعداد 2236 ہو گئی جبکہ 889 نئے مریض سامنے آ گئے۔ 76 ہزار سے زائد افراد کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔
چینی انتظامیہ نے ہبئی صوبے میں لاکھوں افراد کو طبی قید میں رکھا ہوا ہے۔ جنوبی کوریا میں ہونے والی ہلاکت کے ساتھ چین کے باہر دیگر ممالک میں کورونا وائرس سے اب تک گیارہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
چین کے بعد جنوبی کوریا کورونا وائرس سے متاثرہ بدترین ملک بن گیا ہے جہاں گزشتہ روز وائرس کے مزید 21` کیس سامنے آئے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق بیماریوں کی روک تھام کے کوریائی مراکز کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز کورونا وائرس کے مزید 52 کیس سامنے آنے کے بعد ملک میں مجموعی طور پر وائرس کا شکار مریضوں کی تعداد 156 ہو گئی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ شائیجیونجی گرجا گھر کے 80 اراکین میں کورونا وائرس کی تصدیق کی جا چکی ہے، جنوبی کوریا کے چار بڑے شہروں میں رہائشیوں کو گھروں کے اندر رہنے اور بڑے امریکی اڈے کے علاقے میں نہ جانے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہیں۔
اسی طرح کورنا وائرس کی روک تھام کی غرض سے گلگت بلتستان کے اضلاع ھنزہ اور نگر میں چین سے ہجرت کر کے آنے والے موسمی پرندوں کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی۔
انتظامیہ نے ضلع بھر میں دفعہ 144 نافد کردیا۔ڈپٹی کمشنر نگر شاہ رخ چیمہ اور اسٹنٹ کمشنر ھنزہ ذولقرنین خان کے مطابق ان دنوں موسمی پرندے ہجرت کر کے چین کے راستے ھنزہ اور نگر کے علاقوں میں داخل ھو رہے ہیں جن کا مقامی لوگ شکار کرتے ہیں جس سے علاقے میں کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے۔
دونوں اضلاع کی ضلعی انتظامیہ نے اس خطرے کے پیش نظر مہاجر پرندوں کے شکار پر پابندی عائد کردی ھے جس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ھنزہ پاک چین سرحد پر واقع ہے جس کی وجہ سے موسمی پرندے چین سے ھنزہ میں داخل ھو رہے ہیں جہاں ان کے متوقع شکار کے پیش نظر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
دوسری جانب کورونا وائرس کے باعث چین سے درآمدات میں کمی کی وجہ سے موبائل اسسریز کا کاروبار کرنے والوں کی پریشانی بڑھنے لگی ہے، مارکیٹس میں ایک ماہ کے دوران مختلف اسسریز کی قیمتوں میں 30 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے اور مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔
موبائل اسسریز کے بڑے درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ موبائل فونز سمیت اسسریز کا ایک بڑا حصہ چین سے پاکستان آتا ہے لیکن سپلائی نہ ملنے کی وجہ سے ان کے پاس صرف 10فیصد سٹاک رہ گیا ہے اور درآمد کے حوالے سے ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہے۔
درآمد کنندگان کا کہنا ہے ا نہیں بتایا گیا تھاکہ درآمدی سامان کی سپلائی 22فروری سے بحال ہو جائے گی لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ابھی اس کے کوئی آثار نہیں ہے اور سپلائی غیر معینہ مدت کیلئے تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب مارکیٹ سروے کے مطابق موبائل اسسریز کی قیمتوںمیں ایک ماہ کے دوران 30فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے اور اگر صورتحال بر قرار رہی تو اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
یہی نہیں بلکہ ایشیا کی فضائی کمپنیوں کو کورونا وائرس کے باعث 27 ارب ڈالر سے زیاد نقصان کا خدشہ ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق متاثر ہونے والی فضائی کمپنیوں میں سے بیشتر کا تعلق چین سے ہے۔انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) نے ابتدائی نقصانات کا اندازہ لگاتے ہوئے رپورٹ شائع کی ہے جس کے تحت چین کی اندرون ملک چلنے والی ہوائی کمپنیوں کو 12.8 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
آئی اے ٹی اے کے اندازے کے مطابق لوگوں کی آمد و رفت میں کمی کے باعث چین کی فضائی کمپنیوں کے آپریشنز میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ رواں سال میں ایشیا کے ممالک میں سفر کرنے والوں کی تعداد میں 8 فیصد کمی متوقع ہے۔
آئی اے ٹی اے کے ڈائریکٹر جنرل الیگزنڈر نے کہا ہے کہ ‘فضائی کمپنیوں کے لیے یہ سال انتہائی مشکل ہوگا، تیل کے اخراجات میں کمی سے نقصان کا ازالہ ہونے میں مدد ملے گی۔
ایشیا کے علاوہ دیگر بین الاقوامی ہوائی کمپنیوں کے 1.5 ارب ڈالر کے نقصان کا خدشہ ہے۔ ایئر فرانس کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اپریل تک کمپنی کو تقریباً 200 ملین ڈالر کا نقصان ہوگا۔
دوسری جانب جرمنی نے بھی تجارتی اہداف کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے، کورونا وائرس کے باعث جرمنی کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
کورونا وائرس کا خدشہ، چین کی جمناسٹک ٹیم بھی ورلد کپ سے باہر
کورونا وائرس، چین میں پاکستانی صنعت کاروں کی سینکڑوں فیکٹریاں بند
چین کی جرمنی کے ساتھ سب سے زیادہ تجارت ہوتی ہے اور جرمنی میں بننے والی مصنوعات کی چین میں بے حد مانگ ہے۔
ادھر چین میں کورونا وائرس سے ہزاروں افراد کی ہلاکت کے بعد اس طرح کی وباؤں پر اور ان سے لوگوں کی ہلاکت کے موضوعات پر بننے والی فلموں میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ گئی ہے۔
آئی ٹیونز پر جہاں ہر ہفتے نئی ریلیز ہونے والی فلموں کی سرچ ٹاپ پر ہوتی ہے، چین میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد اب لوگ ماضی میں وباؤں اور قدرتی آفات پر بننے والی فلمیں سرچ کر رہے ہیں جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ ان وباؤں سے بچنے کے حل بھی انہی فلموں میں تلاش کر رہے ہیں۔گزشتہ کچھ ہفتوں سے 2011 میں امریکی فلم ساز اسٹیون سودربرگ کی بنائی گئی فلم ‘کانٹیجیئن’ آئی ٹیونز کے چارٹ پر پہلے نمبر پر ہے۔
اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک کاروباری خاتون ہانگ کانگ میں ایک شیف سے ہاتھ ملانے کے بعد ایک مہلک مرض میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور یہ مہلک مرض ان کے ساتھ امریکا میں آجاتا ہے۔
اس فلم کی کہانی کافی حد تک چین میں پھیلنے والے حالیہ پْراسرار کورونا وائرس سے ملتی ہے جس سے اب تک دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 75 ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔
کورونا وائرس کی طرح فلم میں دکھایا گیا جان لیوا وائرس بھی جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے اور پہلے ہی مہینے میں دنیا بھر میں 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد فلم ”کانٹیجیئن” ایک مرتبہ پھر سے مقبول ہو گئی ہے اور مختلف ممالک کے ٹاپ چارٹس میں یہ اولین نمبروں پر ہیں۔
اسی طرح موبائل فون گیم ‘پلاگ انک’ بھی مقبولیت کی بلندیوں پر ہے جس میں کھلاڑی ایک قاتل مرض کو انسانوں میں پھیلنے سے روکتے ہیں۔گزشتہ سال یوٹیوب کے تعلیم سے متعلق ایک چینل ‘ایکسٹرا کریڈٹس’ نے 1918 میں دنیا میں زکام کے وباء سے لاکھوں افراد کی ہلاکت کے 100 سال مکمل ہونے پر7 حصّوں پر مشتمل ایک اینیمیشن سیریز ریلیز کی۔
سیریز کے مصنف رابرٹ راتھ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد سے ان کی سیریز کو لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکا کی پروڈکشن کمپنی نیٹ فلکس نے بھی اس دوران جنوری میں”پینڈامک” نام کی دستاویزی فلم بنائی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دنیا نئے وائرسز کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے۔
امریکا کے صحافی شیری فرنک اور اس فلم کے پرڈیوسر کا کہنا تھا کہ لوگوں کا فلم ‘پینڈیمک’ سے متعلق کہنا ہے کہ یہ فلم بلکل درست وقت پر ریلیز ہوئی ہے۔