صحت

ورلڈ مینٹل ڈے، پاکستان میں مہنگائی نے سب کو ڈپریشن کا شکار بنا دیا

 

کیف آفریدی

پشاور سے تعلق رکھنے والا سلیم خان پچھلے 3 سالوں سے رکشہ چلارہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انہیں خبر نہیں ہوتی تھی اور گھر میں معمولی معمولی باتوں پر اپنی بیوی او بچوں کو ڈانتا تھا۔ ایک دفعہ بخار چڑھ گیا تو ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے انجیکشن لگایا اور دوائی بھی دی۔ جاتے وقت ڈاکٹر کو بتایا کہ پچھلے 3 مہینوں سے انکو کچھ عجیب سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ معمولی سی بات پر جھگڑاتا رہتا ہے اور زیادہ سوچ کی وجہ سے کبھی کبھی اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے۔ نیند بھی پوری نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر نے علامات سن کر مجھ سے اور بھی جانکاری لے لی۔ جس سے معلوم ہوا کہ مہنگائی کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوا ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ذرا سی بات پر بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہوں۔ خیر وہ علاقے کا ڈاکٹر تھا مجھے خواب آور گولیاں بھی دی اور ساتھ میں ماہر سائکاٹرسٹ سے رجوع کرنے کو کہا۔ تاہم میں ابھی تک نہیں گیا ہوں لیکن صرف یہ اندازہ ہوا ہے کہ گھر کی ضروریات پوری نہ ہونے پر میرا یہ حال ہوا ہے۔

دماغی صحت کا عالمی دن ہر سال 10 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ آج کے دن پوری دنیا میں دماغی صحت سے جڑے مسائل پر آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ جسمانی بیماریوں یا بیماریوں کی علامات اور علاج کو جانتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ اپنی ذہنی صحت کا خیال کیسے رکھا جائے۔

دماغی صحت کیا ہے اور کن وجوہات کی بنا پر انسانی دماغ مسائل کا شکار ہوتا ہے؟

اس حوالے سے ٹی این این نے ماہر امراض سائکاٹریسٹ اینڈ سائیکو تھراپسٹ ڈاکٹر محمد شکیل سے جاننے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر محمد شکیل کہتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی صحت انسانی زندگی کے اہم ترین پہلوؤں میں سے ایک ہے۔

دماغی صحت مجموعی صحت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ انسان کا رویہ، بات کرنے کا انداز، سوچنے کا انداز اس کی ذہنی صحت پر منحصر ہے۔ زندگی میں مشکل وقت سے کیسے نمٹا جاتا ہے، دوستی کیسے بنتی ہے اور رشتے کیسے نبھاتے ہیں؟ اس کی زندگی کیسے گزرے گی؟ اس کا کیریئر کیسا ہوگا، یہ سب اس شخص کی ذہنی صحت پر منحصر ہے۔ تاہم آج کل پاکستان کے موجودہ حالت کے تناظر میں بیشتر لوگ ذہنی صحت کے حوالے سے نہیں جانتے اور جو جانتے ہیں وہ بھی اس جانب توجہ نہیں دیتے۔

ڈاکٹر شکیل کہتے ہیں کہ ہمیں جتنے بھی مریض آتے ہیں وہ ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات پر لڑنا جھگڑنا اور تکرار کرنا انکی عادت بن جاتی ہے۔ پچھلے ایک سال سے جتنے بھی مریض کلینک آتے ہیں ان میں بیشتر ذہنی دباؤ کا شکار اور گھریلوں جھگڑوں جیسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہم مریض سے انکے پورے دن کی روٹین کے بارے جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انکی بیماری کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ خرچے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ آمدن اتنی نہیں ہوتی کہ جس سے متاثرہ شخص اپنی گھریلوں ضروریات پوری کر سکیں۔ انہوں وجوہات کی سے میاں بیوں کی لڑائی اور معمولی معمولی باتوں پر توں توں کرنا عادت بن جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی انسان کی دماغی صحت خراب ہوتی جارہی ہے یعنی بہت سے نفرت انگیز خبریں اور تشدد سے بھری ویڈیوز وغیرہ دیکھنے سے بھی ایک شخص الجھن کا شکار ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر محمد شکیل کے مطابق حکومت کو ایسا ریلیف مہیا کرنا چاہیے تاکہ ایک غریب آدمی کی ضروریات زندگی صحیح ٹریک پر آجائے۔ اسکے ساتھ ساتھ متاثرہ شخص کو بھی یہ سوچنا ہو گا کہ حالات کامقابلہ کرنا چاہئے بجائے کہ اگر اپکی زندگی 10 سال ہے تو کیوں 5 سال تک محدود کر دتیے ہیں یعنی ذہنی دباؤ کا زیادہ اثر انسان کی عمر کم کر دیتا ہے۔ اسلیے چاہیے کہ مفاہمت کو اپنائے اور صبر اور تحمل سے مشکلات کا حل نکالیں۔ زندگی گزاریں نا کہ زندگی کو امتحان بنا لیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button