صحت

”کڈنی ٹرانسپلانٹ نہیں ہوئی تو مریضہ کی زندگی کو خطرہ ہے”

طیب محمدزئی

خیبر پختون خوا میں گردوں کی پیوندکاری میں قانونی سُقم، گردوں کے ٹرانسپلانٹ (پیوندکاری) کے منتظر درجنوں مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے، میڈیکل ٹرانسپلانٹ ایکٹ 2014 میں پیوند کاری کا ذکر ہے تاہم ایم ٹی آر اے (میڈیکل ٹرانسپلانٹ اتھارٹی) حکام کے مطابق خاندان سے باہر گردہ عطیہ کرنا 2017 رولز کے خلاف ہے اور اس سے گردوں کے غیرقانونی کاروبار کا خدشہ موجود ہے، اس قانونی سقم کی وجہ سے مریضوں کو باہر سے عطیہ ہونے والے گردوں کی پیوندکاری میں این او سی کا مسئلہ ہے، اس قانونی سقم کو دور کرنے کے لیے پشاور ہائیکورٹ نے ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران چیئرمین ایم ٹی آر اے اور سیکرٹری ہیلتھ سے جواب طلب کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں پشاور کی رہائشی ایک خاتون مسماۃ (ف) جو گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے، انہوں نے توہین عدالت درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے محکمہ صحت اور ایم ٹی آر اے کو فریق بنایا ہوا ہے۔

درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج ہے اور اُسے گردے کی پیوندکاری کی اشد ضرورت ہے۔ عدالت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر خاتون کو ڈونر سے کڈنی ٹرانسپلانٹ کی اجازت دے دی ہے۔

خاتون اس وقت نجی ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل ہے اور حالت تشویشناک ہے۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اگر کڈنی ٹرانسپلانٹ نہیں ہوئی تو مریضہ کی زندگی کو خطرہ ہے اور خدانخواستہ اگر مریضہ کو کچھ ہو گیا تو ہسپتال انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہو گی۔

خاتون مریضہ نے درخواست میں مزید لکھا ہے کہ اُس کے خاندان میں یہ موروثی مرض ہے، خاتون کے شوہر بھی اس بیماری سے جاں بحق ہوئے ہیں، خاندان میں گردہ عطیہ کرنے والا نہیں ملا اس لیے خاندان والوں نے خاندان سے باہر فی سبیل اللہ گردہ عطیہ کرنے والا ڈونر ڈھونڈ لیا ہے جو متاثرہ خاتون کو گردہ عطیہ کرنا چاہتا ہے لیکن عدالتی احکامات اور متعلقہ ہسپتال کی ٹرانسپلانٹ ایویلوویشن کمیٹی کی سفارشات کے باوجود ایم ٹی آر اے خیبر پختون خوا مذکورہ نجی ہسپتال کو گردے کی پیوندکاری کیلئے این او سی جاری نہیں کر رہی ہے جس کی وجہ سے خاتون مریضہ کی حالت دن بد ن خراب ہو رہی ہے اور ہسپتال انتظامیہ نے بھی اس حوالے سے مریضہ کے خاندان کو آگاہ کر دیا ہے۔

اس حوالے متاثرہ خاتون کے وکیل رمیز محمد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ گردوں اور اعضاء کی پیوندکاری کے لیے صوبائی حکومت نے 2014 میں قانون (ایکٹ) بنایا اور اس ایکٹ کے تحت 2017 ایم ٹی آر رولز سامنے آئے جس کے بعد پشاور کے ایک نجی اور دو سرکاری ہسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور حیات ٹیچنگ ہسپتال (کے ٹی ایچ) میں میڈیکل ٹرانسپلانٹ ایویلوویشن کمیٹیاں بنائی گئیں، ہر کمیٹی 8 افراد پر مشتمل ہے جس میں مختلف سپشلسٹ ڈاکٹرز، مذہبی سکالر اور نفسیاتی ماہرین شامل ہیں، ہر ہسپتال کی کمیٹی ایم ٹی آر اے کو پیوندکاری کے حوالے سے سفارشات ارسال کرتی ہے جس کی روشنی میں ایم ٹی آر اے پیوندکاری کی اجازت دیتی ہے۔

متاثرہ خاتون کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سے قبل بھی ایک آئینی درخواست دی تھی کہ متاثرہ خاتون کو جلد سے جلد گردے کی پیوندکاری کی جائے جس پر عدالت نے متعلقہ نجی ہسپتال کو احکامات جاری کر دیئے تھے اور متعلقہ ہسپتال کی ٹرانسپلانٹ کمیٹی نے بھی متاثرہ خاتون کے حق میں سفارشات ارسال کی تھیں لیکن ایم ٹی آر اے ہسپتال کو این او سی جاری نہیں کرتی جس سے متاثرہ خاتون کا آئینی، قانونی اور انسانی حق متاثر ہو رہا ہے کیونکہ آئین اور قانون متاثرہ خاتون کو فری طبی سہولیات دے رہے ہیں۔

رمیز محمد ایڈووکیٹ کے مطابق 2014 ایکٹ میں یہ واضح ہے کہ اگر خاندان میں عطیہ کرنے والا نہ ملے تو پھر مریض خاندان سے باہر کسی بھی شخص سے گردہ عطیہ لے سکتا ہے اور یہ عمل ہسپتال کی ٹرانسپلانٹ ایوولویشن کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ہو گا اور کمیٹی کے پاس یہ اختیار ہے، ”ہم نے عدالت کو ایکٹ کے حوالے سے آگاہ کیا ہے۔”

دوسری جانب ایم ٹی آر اے کی انتظامیہ نے بھی عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ ایکٹ تو اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن ایکٹ کے بعد رولز بنائے گئے ہیں جن میں خاندان سے باہر ڈونر ممنوع ہے کیونکہ اس سے غیرقانونی کاروبار کا خدشہ ہے، عدالت نے اس قانونی سُقم کو دور کرنے کے لیے محکمہ صحت متعلقہ حکام اور ایم ٹی آر کے چیئرمین کو طلب کیا ہوا ہے اور عدالت نے موقف اختیار کیا ہے کہ ایک انسانی مسئلہ ہے لہذا اس پر قانون واضح ہونا چاہیے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button