تعلیملائف سٹائل

ننھی اریبہ کے کھردرے ہاتھ، ریاستی پالیسیوں سمیت ہم سب کے منہ پر طمانچہ

 

خالدہ نیاز

سوات کی 13 سالہ اریبہ (فرضی نام) خیالوں میں گم سم بیٹھی ہے، اریبہ کی یہ عمر سکول جانے کی ہے تاہم غربت نے اس سے اس کا بچپن چھین لیا ہے اور وہ کم عمری میں ہی دوسروں کے گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ گڑیا کے ساتھ کھیلنے کی بجائے وہ اس سوچ میں مگن ہے کہ مالکن کا کتنا کام کرلیا ہے اور کتنا باقی ہے، کتابوں کی شکل اس نے نہیں دیکھی اور نہ ہی گھر والوں کے ساتھ کبھی پکنک منانے کسی پرفضا مقام پرگئی کیونکہ اس کو اور اس کے گھر والوں کو تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

اریبہ کی والدہ کے مطابق جب وہ 7 سال کی تھی تب سے اس نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کیا ہے کیونکہ اس کے والد محنت مزدوری کرتے ہیں اور کبھی مزدوری ملتی ہے اور کبھی نہیں یوں گھر کا خرچہ چلانے کے لیے اریبہ اور اسکی دوسری بہن لوگوں کے گھروں کا کام کرتی ہیں اور گھر کا خرچہ انہیں کے پیسوں سے چلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اریبہ زیادہ تر وقت لوگوں کے گھروں میں گزارتی ہیں جس کی وجہ سے اس کو بہن بھائی اور ماں باپ کے علاوہ باقی رشتوں کا بھی علم نہیں ہے اور وہ اکثر گم سم رہتی ہیں۔

 اریبہ نے سردیوں کی راتیں برآمدے میں گزاری ہیں

اریبہ کی والدہ کہتی ہیں کہ اریبہ اب جن کے گھر میں کام کرتی ہیں وہ لوگ بڑے اچھے ہیں جو اسکا بہت خیال رکھتے ہیں تاہم سب لوگ ایسے نہیں ہوتے کیونکہ اس سے پہلے اریبہ جن لوگوں کے گھر میں کام کرتی تھی وہ اس کا خیال نہیں رکھتے تھے، سردیوں کے موسم میں وہ لوگ اندر سوتے تھے اور میری بیٹی برآمدے میں ٹھٹرتی سردی میں اکیلی پڑی رہتی اور سردیوں کی راتیں تو ویسے بھی لمبی ہوتی ہیں اس وجہ سے ایک تو سردی اوپر سے اس کو ڈر بھی لگتا تھا جس سے اس میں چڑ چڑاپن بھی پیدا ہوگیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں بیٹیوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے نہ ہی ان کا علاج کرواسکتے ہیں دماغی صحت کے ڈاکٹر کے پاس لے جانا تو بہت دور کی بات ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اریبہ زیادہ تر مالکان کے گھر میں ہوتی ہے اور گھر کا چکر کم ہی لگاتی ہیں اور جب آتی ہیں تب بھی خاموش رہتی ہیں زیادہ بات نہیں کرتی جس نے انکو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

صرف 7 ہزار روپے میں پورا مہینہ دن رات کام  

اریبہ کے گھر والوں کو مہینے کے 4 ہزار روپے ملتے ہیں جبکہ اریبہ کو روزانہ ایک سو روپے پاکٹ منی بھی ملتی ہے تاہم اس سے پہلے وہ جہاں کام کرتی تھی وہاں اس کو مہینے کے صرف پندرہ سو روپے ملتے تھے اور باقی کچھ بھی نہیں ملتا تھا جس سے ان کے باقی چار بہن بھائی اور ماں باپ شب و روز بسر کررہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 160 ملین سے زیادہ بچے پانچ سال کی عمر میں چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں جن میں 84 ملین بچے مڈل انکم ممالک جبکہ ٹوٹل چائلڈ لیبر کے نو فیصد بچے کم آمدنی والے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح اپر مڈل انکم ممالک کے سات فیصد بچے مزدوری کر رہے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3.3 ملین بچے چائلڈ لیبرنگ میں گھرے ہوئے ہیں۔

محنت مزدوری کرنے والے بچوں میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے

ماہر نفسیات عمارہ اقبال کا کہنا ہے کہ جب ایک بچہ جس کی عمر کھیلنے کھودنے اور سکول جانے کی ہوتی ہے اس کو محنت مزدوری پہ لگادیا جاتا ہے تو اس سے اس میں احساس کمتری پیدا ہوتی ہے ایسے بچوں میں چڑ چڑاپن بھی پیدا ہوجاتا ہے اور وہ میںٹل ہیلتھ مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ عمارہ اقبال نے کہا کہ محنت مزدوری کرنے والے بچے سردی گرمی میں سخت محنت کرتے ہیں اپنی صحت کی پرواہ کیے بغیر لیکن انکو اس طرح سے پیسے نہیں مل پاتے جس کی وجہ سے بھی ان میں چڑ چڑاپن پیدا ہوجاتا ہے کہ میں اتنی مزدوری کررہا یا رہی ہوں لیکن مجھے اس کا صلہ نہیں مل رہا۔

عمارہ اقبال کے مطابق کچھ بچے مار پیٹ، جنسی تشدد کی وجہ سے بھی مینٹل ہیلت ایشوز سے دوچار ہوجاتے ہیں اور پھر یا تو وہ گھروں سے بھاگ جاتے ہیں یا پھر سٹریٹ کرائمز میں لگ جاتے ہیں۔

علامات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمارہ اقبال نے کہا کہ محنت مزدوری کرنے والے بچے جب بات نہ مانے، ان میں چڑ چڑا پن آجائے اور غصہ وغیرہ کریں انکے  رویے میں تبدیلی آئے، چیزیں پھینکے تو یہ دماغی بیماریوں کی علامات میں سے چند ہیں اور انکو فورا کسی ماہر نفسیات کو دکھانا چاہیے۔

عمارہ اقبال کا کہنا ہے کہ مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے جو سٹگما موجود ہے اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ لوگ جسمانی صحت کی طرح دماغی صحت کا بھی خیال رکھے اور ماہر نفسیات کے پاس جائے اس کے علاوہ چائلڈ لیبر سے وابستہ بچوں کے لیے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں ماہر نفسیات کا تقرر کیا جائے تاکہ انکی ضروریات پوری ہوسکیں۔

 پاکستان میں سروے کے مطابق 33 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں ہیں 

خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکرکے مطابق پاکستان میں 1996 کے سروے کے مطابق 33 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں ہیں جبکہ غیرسرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کم از کم ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر میں ہیں۔

کے پی میں 1996 کے سروے کے مطابق 11 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں ہیں چونکہ 1996 کے بعد چائلڈ لیبر پر کوئی سروے نہیں ہوا اس لئے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کتنے بچے صوبہ میں چائلڈ لیبر میں ہیں البتہ پچھلے سال بینظیر انکم سپورٹ کے آوٹ آف سکول سروے کے مطابق 47 لاکھ بچے آوٹ آف سکول ہیں جن میں کم از کم 12 فیصد چائلڈ لیبر میں ہیں۔

خیبر پختونخوا میں چائلڈ لیبر کے ممانعت کا 2015 کا قانون موجود ہے اس کے علاوہ صوبہ میں مفت و لازمی تعلیم کا قانون 2017 بھی موجود ہے لیکن ان پر عمل نہیں ہورہا۔

عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ قوانین پر عمل نہ ہونے کی بنیادی وجہ فنڈز یا بجٹ کی فراہمی ہے۔ اس کے علاوہ ان قوانین سے متعلق عوام میں شعور و آگاہی کی کمی ہے جبکہ قوانین ہر عمل کرنے کے لئے مختلف اداروں کے درمیان کوآرڈینیشن کا بھی فقدان ہے اور قوانین پر عمل کرنے کی اہلیت و صلاحیت کا بھی ایشو ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان پورے ملک میں بچوں کے حقوق کے فروغ اور تحفظ کے حوالے سے نہ صرف عوام میں عمومی شعور و آگاہی پھیلا رہا ہے بلکہ حکومتی اداروں کے ساتھ ملک کر پالیسی سازی میں سپورٹ بھی دے رہا ہے۔ اسی طرح مختلف سٹیک ہولڈرز کا بچوں کے ایشوز اور متعلقہ نظام اور قوانین پر ٹریننگز کرواتا ہے جبکہ متعلقہ اداروں کے استعداد کار کے فروغ میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

 عدلیہ کیساتھ ملکر 8 چائلڈ کورٹس بنائے ہیں، عمران ٹکر

عمران ٹکر نے کہا کہ ان کے ادارے نے خیبر پختونخوا میں عدلیہ کیساتھ ملکر حال ہی میں 8 چائلڈ کورٹس اور پولیس کیساتھ ملکر پشاور میں جینڈر پروٹیکشن یونٹ بھی بنائے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر کمیشن کے ساتھ مل کر بچوں کو کام کی جگہوں پر درپیش خطرات، تعلیم کی اہمیت و افادیت اور جنسی زیادتی کے روک تھام کے حوالے سے کمیونٹی کے سطح پر شعور و آگاہی پھیلا رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں عمران ٹکرنے بتایا کہ انکا ادارہ ذہنی صحت کے حوالے سے کل وقتی کام نہیں کررہا ہے جبکہ ضرورت کی بنیاد پر انکا ادارہ یا وہ خود اپنے وسائل پر اور یا دیگر اداروں کی سہولت کاری سے ذہنی سہولیات کیس ٹو کیس اور ضرورت کے مطابق سہولت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ عمران ٹکر نے کہا کہ مینٹل ہیلتھ ایک بہت بڑا ایشو ہے جس پر ہمارے ملک میں کام نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ وقت کا تقاضا ہے کہ بچوں اور خواتین کے ذہنی صحت کے مسائل پر کام کیا جائے۔

چائلڈ لیبر کے حوالے سے قانون کیا کہتا ہے ؟

پشاور سیشن کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ذوالقرنین ایڈوکیٹ نے اس حوالے سے کہا کہ خیبر پختوںخوا پروبیشن آف ایمپلائمنٹ ایکٹ 2015 ہے اس کے علاوہ خیبر پختونخوا انڈسٹریل ایکٹ 2010 بھی ہے، فیکٹریز ایکٹ، ورک پلیس کمپینسیشن ایکٹ، پیمنٹ آف ویجز ایکٹ، مینیمم ویجز آرڈینیس سمیت کئی ایک قوانین موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے جو انٹرنیشنل معاہدے سائن کئے ہیں اس کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے لیکن ان قوانین پر عمل درآمد نہیں ہورہا اور اس کی اصل وجہ یہ ہے عوام میں اس حوالے سے آگاہی نہیں ہے۔

ایڈووکیٹ ذوالقرنین نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 25 میں کہا گیا ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ 5 سال سے 16 سال تک عمر کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی تو اگر ریاست یہی ایک ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کریں تو اس سے چائلڈ لیبر میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص یا ادارہ چائلڈ لیبر سے متعلق قوانین پر عمل درآمد نہیں کرتا انکے حقوق کی پامالی کرتا ہے تو اس کے لیے لیبر کورٹس موجود ہے جس میں 20 ہزار روپے تک جرمانہ اور ایک سال قید کی سزا شامل ہے جبکہ دوبارہ وہی غلطی کرنے پر اس کو دو سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

 سوات ری ہیب سنٹر چائلڈ لیبر کے لیے امید کی کرن

اگرچہ خیبر پختوںخوا میں لاکھوں بچے محنت مزدوی کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت بھی مسائل سے دوچار ہیں تاہم کئی ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو ان بچوں کو زندگی کی طرف واپس لانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ری ہیب سنٹر سوات بھی انہیں اداروں میں سے ایک ہے جہاں محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے ایک الگ سیکشن موجود ہے۔

ری ہیب سنٹر سوات کے چیئرمین فضل حامد نے بتایا کہ ابھی انکے ادارے نے 70 ایسے بچوں کا علاج کیا ہے جو کم عمری میں محنت مزودری کرتے ہیں اور چائلڈ لیبر کہلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی بچے جو آج محنت مزدوری کررہے ہیں یہی ہمارے ملک کا سرمایہ ہے اور انہوں نے ہی ملک کی بھاگ دوڑ سنھبالنی ہے تو ضروری ہے کہ ایک تو انکو تعلیم دی جائے دوسری اہم بات انکی ذہنی نشوونما کے لیے اقدامات اٹھائے جائے کیونکہ ایسے بچوں کے ساتھ اکثر ایسے واقعات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں۔

ذوالقرنین سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوانین تو موجود ہیں لیکن اس پہ عمل درآمد نہیں ہورہا جس کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ غربت اور بے روزگاری زیادہ ہے جس کی وجہ سے بچے کم عمری میں ہی محنت مزدوری پہ لگ جاتے ہیں۔

فضل حامد نے کہا کہ چائلڈ لیبر کرنے والے کچھ بچے نشوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کا ادارہ ایسے بچوں کا علاج کرتا ہے، پہلے ایسے بچوں کو نشے سے چھٹکارا دلایا جاتا ہے پھر ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور انکو ایکسرسائزز وغیرہ کروائے جاتے ہیں اور ان کو زندگی کی طرف دوبارہ لایا جاتا ہے تاکہ ایک مفید شہری بن سکیں اور اپنا اور ملک کا نام روشن کر سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button