لائف سٹائل

پاکستان میں اقلیتیں محفوظ سہی پر ان کے مسائل جوں کے توں ہیں

محمد فہیم

پاکستان میں 11 اگست کو قومی یوم اقلیت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کتنا پرامن اور اقلیتوں کیلئے محفوظ ہے۔ اس روز ہر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو تقاریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ تصاویر بنائی جاتی ہیں اور انہیں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا جاتا ہے، 11 اگست گزر جاتا ہے اور معاملات جوں کے توں ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں اقلیتیں آزاد ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔ اگر موازنہ کیا جائے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تو وہاں کی اقلیتوں سے یہاں یہ لوگ کئی گنا بہتر زندگی گزار رہے ہیں تاہم دیکھا جائے تو آج بھی اقلیتوں کے بنیادی حقوق انہیں میسر نہیں ہیں جبکہ کئی وعدے بھی اب تک ایفا نہیں ہو سکے ہیں۔

آل سینٹ چرچ حملہ

پشاور کے علاقے کوہاٹی میں تاریخی آل سینٹ چرچ کو 22 ستمبر 2013 کو دو خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا۔ اس سے قبل اور بعد میں اقلیتی عبادت گاہوں پر کئی حملے ہوئے تاہم دیکھا جائے تو اس حملہ میں سب سے زیادہ نقصان ہوا اس حملے کے بعد تمام دنیا اور پاکستان کی قیادت نے اس چرچ کا دورہ کیا اور کئی وعدے کئے جن میں چند تو ایفا ہو گئے لیکن اکثریت آج بھی صرف وعدوں تک محدود ہے۔

آل سینٹ چرچ کے انڈوومنٹ فنڈ کے 20 کروڑ روپے بینک اکاﺅنٹ کی زینت بنے ہوئے ہیں اور اس سے متاثرین کی مدد کا وعدہ صرف قانون بنانے کی حد تک محدود ہے، قانون تو بہتر تیار کیا گیا تاہم قانون میں جو باتیں لکھی گئیں اس دھماکے کے 9 سال گزر جانے کے باعث وہ اب بے معنی ہو گئی ہیں۔ 18سال تک دھماکے میں یتیم ہونے والے بچوں کی تعلیم اب کیسے ہو گی؟ 9 سال بعد ان کی عمر کتنی ہے؟ بیوہ ہونے والی خواتین کی مدد اور زخمیوں کی امداد بھی اس انڈوومنٹ فنڈ سے ہونا تھی لیکن فنڈ کے استعمال پر اب تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔

ہندو میرج ایکٹ، شمشان گھاٹ اور مسیحی قبرستان کا مسئلہ

ہندو برادری کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی خواتین کا تحفظ ہے، مسائل اور بھی بہت ہیں لیکن یہ قواعد و ضوابط کا مسئلہ گزشتہ 5 سال سے حل طلب ہے جس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کئی ہندو خواتین بے گھر ہو گئی ہیں۔ اسی طرح شمشان گھاٹ کا وعدہ بھی متعدد اضلاع میں اراضی کے حصول کے باعث لٹکا ہوا ہے۔ مسیحی قبرستان کیلئے اب جگہ نہیں مل رہی۔ مسیحی برادری کے پاس اپنے مردے دفنانے کیلئے بھی جگہ کم پڑ گئی ہے اور ان کے مردوں کیلئے اکثریتی قبرستانوں کا کا دامن چھوٹا پڑ گیا ہے جس کے باعث وہ اپنے مردے دفنانے کیلئے دگرگوں صورتحال سے دوچار ہیں۔ زندہ ہوتے ہوئے ہندو اور مسیحی برادری کو مسائل موجود ہیں تاہم ”مر کے بھی نہ چین ملا تو کدھر جائیں گے؟“ کے مصداق مرنے کے بعد بھی ان کے مسائل ختم نہیں ہو رہے ہیں بلکہ مرنے کے بعد شمشان گھاٹ میں جلانے یا مسیحی قبرستان میں دفنانے کا ایک اور مسئلہ بڑھ جاتا ہے۔

تعلیمی کوٹہ صرف قرارداد تک محدود

اقلیتی برادری کیلئے کوٹہ کا سہرا پاکستان تحریک انصاف کے سر جاتا ہے۔ اس سے قبل یہ کوٹہ نصف فیصد یعنی اعشایہ 5 فیصد تھا جس کے مطابق 200 آسامیوں میں ایک اقلیت کیلئے تھی اس کوٹہ کو اب بڑھا کر 5 فیصد کر دیا گیا جبکہ تعلیمی کوٹہ دو فیصد ہے تاہم یہاں یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اگر تعلیم دو فیصد نوجوان حاصل کریں گے تو نوکری کیلئے 5 فیصد نوجوان کہاں سے آئیں گے؟ اس ضمن میں حکومتی اور اپوزیشن کے اقلیتی ایم پی ایز نے مشترکہ طور پر صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کر لی تاہم قرارداد عمل درآمد سے محروم ہے جبکہ اسمبلی رولز کے مطابق متفقہ قرارداد منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد لازمی ہو جاتا ہے اور یہ عمل درآمد آج تک صرف دعوؤں تک محدود ہے۔

سکھ برادری کو تحفظ کی فراہمی

سکھ برادری میں بڑی تعداد میں تاجر اور حکمت سے وابستہ ہیں اور یہی تاجر اور حکیم مسلسل دہشتگردی کا شکار رہے ہیں۔ کئی سکھ برداری کے رہنماﺅں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا ہے تاہم ان پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے اور معاملہ یہ کہہ کر ہی داخل دفتر کر دیا گیا کہ دہشت گرد حملہ ہے۔

اس حوالے سے سکھ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے بھی کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے جبکہ سکھ برادری کا ایک بہت بڑا مسئلہ کرپان رکھنے کا بھی ہے۔ اس حوالے سے ہائی کورٹ کے احکامات واضح رہے اس کے باوجود کئی سرکاری دفاتر اور مقامات پر انہیں اپنا کرپان (خنجر) رکھنے کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ مذہبی طور پر عدم اطمینان کا شکار رہتے ہیں۔ سکھ برادری کے تحفظ اور کرپان کے مسئلہ کا حل ان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔

اقلیتی برادری کیلئے صوبائی حکومت نے کئی تقاریب بھی سرکاری سطح پر منعقد کی ہیں تاہم ان تقاریب میں چند لوگ ہی شریک ہوتے ہیں، بڑی تعداد میں اقلیتی برادری ان تقاریب کے فوائد سے محروم رہتی ہے۔ ماضی میں ہر ضلع میں اس حوالے سے امن کمیٹی ہوتی تھی جو یہ تقاریب منعقد کرتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ملاکنڈ اور پشاور میں دوبارہ سے امن کمیٹی قائم کی گئی جبکہ باقی اضلاع سے ایسی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔ جو فنڈ بڑے بڑے ہوٹلوں میں تقاریب منعقد کر کے خرچ کیا جا رہا ہے وہ ہر ضلع میں چھوٹی سی تقریب کر کے بھی خرچ کیا جا سکتا ہے جس سے غریب اقلیتوں کی دادرسی بھی ہو گی۔

اسی طرح صحت اور تعلیم سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی بھی انتہائی ضروری ہے۔ پشاور کا احاطہ ہو، تہکال یا پھر کوہاٹی، لال کرتی ہو، رنگ روڈ ہو یا پھر لالہ زار کالونی کی اقلیتی برادری کی رہائش، ان علاقوں میں نکاسی، صحت اور دیگر مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button