شمالی وزیرستان پولیو کا نیا گڑھ بن گیا، مگر کیوں؟
عبدالستار
پاکستان میں آٹھواں پولیو کیس بھی شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہو گیا جو رواں سال دنیا کا نواں پولیو کیس ہے۔ پولیو کا نیا کیس شمالی وزیرستان کی تحصیل میران شاہ میں سامنے آیا ہے جہاں بیس ماہ کی اک بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں رواں سال پہلا کیس 22 اپریل کو رپورٹ ہوا تھا جس کے بعد مسلسل پولیو کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوئے اور ڈیڑھ ماہ میں پولیو وائرس کے آٹھ کیسز رپورٹ ہو گئے یعنی پولیو وائرس نے آٹھ بچوں کو عمر بھر کے لئے معذور کر دیا۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں شمالی وزیرستان کے محکمہ صحت کے ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر شمس نے بتایا کہ ضلع شمالی وزیرستان میں پولیو وائرس کی وباء پھیل گئی ہے اور اس وقت شمالی وزیرستان کا ہر بچہ پولیو وائرس کے خطرے کی زد میں ہے اور مزید کیسز آنے کا خدشہ ہے۔
ڈاکٹر شمس نے کہا کہ ہم شمالی وزیرستان کے علماء، ملکان، مشران، نوجوانوں اور سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن سے اپیل کرتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں پولیو وائرس کو قابو کرنے میں ہماری مدد کریں اور لوگوں میں شعور پیدا کریں کہ اگر اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے دے دیں تو بچے وائرس سے محفوظ ہوں گے کیونکہ پولیو کا وائرس شمالی وزیرستان کے ہر گھر تک پہنچ چکا ہے اور ایسا نہ ہو کہ مزید بچوں کو عمر بھر کے لئے معذور کر دے۔
ڈپٹی ڈی ایچ او شمالی وزیرستان نے بتایا کہ ضلع کے مختلف علاقوں سے مزید نمونے بچوں سے لئے گئے ہیں جس میں ہارڈ کیسز بھی ہیں جو اسلام آباد کے این آئی ایچ لیبارٹری کو بھجوا دیئے گئے ہیں۔
ڈاکٹر شمس نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں مزید دو بچوں کے کیسز ایسے ہیں جن کا پولیو کے وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
وجوہات کیا ہیں؟
ڈپٹی ڈی ایچ او ضلع شمالی وزیرستان ڈاکٹر شمس نے کہا کہ کچھ لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے جبکہ کچھ کے ساتھ ہماری ٹیم کے اہلکار مل کر فیک مارکنگ کر لیتے ہیں اور بچے بغیر پولیو ویکسین کے رہ جاتے ہیں جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے پولیو وائرس کی وباء ضلع میں پھیل گئی ہے اور وزیرستان کا ہر بچہ اس وقت خطرے میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ رپوٹ ہونے والے کیسز کے علاوہ ہم نے کچھ کیسز لیبارٹری بھجوا دیئے ہیں، وہ بھی ہمیں ہارڈ کیسز لگ رہے ہیں جبکہ ان بچوں کے بھی پولیو وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے جن کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے اور فیک مارکنگ کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بچے بھی خطرے میں ہیں جن کو نیوٹریشنز نہیں دی گئی یا معمول کے ٹیکے جات سے بھی رہ گئے ہوں۔
ڈاکٹر شمس نے کہا کہ محکمہ صحت کے ساتھ ضلع انتظامیہ اور فورسز بھی پولیو مہم کے دوران بھرپور تعاون کرتی ہیں، اس وبا کو قابو کرنے کے لئے پورے ضلع میں کوششیں جاری ہیں اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے اور آگاہی مہم بھی شروع کر دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ایمونائزیشن کے علاوہ چھ جون سے تیرہ جون تک تحصیل میرعلی میں پولیو مہم جس کو فریکشنل آئی پی وی کہتے ہیں، وہ شروع کر رہے ہیں اور ہر حجرہ اور ہر مسجد جائیں گے تاکہ ہر بچے کو قطرے اور ٹیکہ جات لگائے جا سکیں۔
پولیو وائرس دنیا میں صرف پاکستان، افغانستان اور افریقی ملک ملاوی میں پایا جاتا ہے، رواں سال افغانستان میں ایک کیس ابھی تک رپورٹ ہوا ہے۔
افغانستان میں یونیسف کے کمیونیکشن آفیسر کمال شاہ نے بتایا کہ افغانستان میں پولیو وائرس کے خلاف مہم کامیابی سے جاری ہے اور اس سال صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے، پولیو وائرس بارڈر کے دونوں طرف ختم ہونا چائیے، اگر ایک طرف بھی موجود ہو تو دونوں ملکوں کے لئے خطرہ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے بارڈر پر لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے وائرس کی منتقلی بھی تیزی کے ساتھ ہوتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں صحت پر کام کرنے والے سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے شمالی وزیرستان میں حالیہ پولیو وائرس کے کیسز میں اضافے کے حوالے سے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں ابھی تک جتنے بچے پولیو وائرس سے متاثر ہوئے ہیں ان کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے گئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں انتظامیہ کی بچوں تک پہنچ بہت کم ہے اور ان علاقوں میں سب سے بڑی وجہ سیکورٹی ہے جہاں پر سیکورٹی نہیں ہوتی وہاں پر پولیو کی ٹیمیں نہیں جاتیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضلعی انتظامیہ اور مقامی ڈپٹی کمشنر کی ذمہ داری ہے کہ ایسے اقدامات کریں کہ بچوں تک پولیو کی ٹیمیں پہنچ جائیں، چند دن پہلے وفاقی وزیر بھی بنوں تک کے علاقوں کا دورہ کر چکے ہیں لیکن جو اصل مسئلہ ہے وہ کوئی ایڈرس نہیں کرتا، ان علاقوں میں سیکورٹی کی وجہ سے پولیو ٹیمیں نہیں جا سکتیں اور مقامی لوگ بھی کہتے ہیں کہ پولیو کی ٹیمیں ہمارے علاقوں میں نہیں آتیں۔
مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں پولیو کے اہلکار غیرذمہ داری کا مظاہرہ کر کے اکثر کسی مقامی شخص کو پولیو ویکسین حوالہ کر دیتے ہیں، غیرتربیت یافتہ لوگوں کی وجہ سے کولڈچین ختم ہو کر پولیو ویکسین غیرموثر ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور متعلقہ اتھارٹی کی غفلت کی وجہ سے پولیو وائرس کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔