صحت

شانگلہ کا ایک گاؤں یتیم کلے کے نام سے کیوں مشہور ہے؟

طارق عزیز، عبدالباری

"گیس کے اخراج سے 13 سو فٹ کوئلے کی کان میں کام کرنے کے دوران والد کو کھو دیا مگر اب اکلوتہ بیٹا ہونے کی وجہ سے ماں کوئلے کی کان میں مزدوری کی اجازت نہیں دیتی”

یہ کہانی ہے ضلع شانگلہ کے عثمان علی کی جس کا والد چند سال قبل درہ آدم خیل کے ایک کان میں جان بحق ہوگیا تھا۔

اکیس سالہ عثمان علی کا تعلق ضلع شانگلہ کے اس علاقے سے ہے جہاں کے  زیادہ تر مرد کوئلے کی کانوں میں حادثات کا شکار ہوئے ہیں اور بیشتر بچے یتیم ہوچکے ہیں جن میں عثمان علی بھی ایک ہے۔

عثمان علی کا کہنا ہے کہ والد کی وفات کے بعد اُس نے اپنی ماں کو بتائے بغیر اپنے والد کی جگہ درہ آدم خیل میں کوئلے کی کان پر کام کرنے گیا تھا مگر ماں کو معلوم ہونے پر انتہائی دکھ ہوا جس پر ماں نے انہیں کوئلے کی کان میں جانے سے سختی سے روک دیا۔

عثمان علی کا کہنا ہے کہ ضلع شانگلہ کے بیشتر نوجوان کوئلے کی کان میں روزگار سے وابستہ ہے اور اکثر حادثات کی وجہ سے انکی جان چلی جاتی ہے جس سے انکے بچے یتیم ہوجاتے ہیں اور بیویاں بیوہ ہوجاتی ہیں۔
عثمان کا کہنا ہے کہ ” اس گاؤں کا نام زڑہ کلے ہے لیکن ضلع بھر میں اسے یتیم کلے کے نام سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ یہاں پر بیشتر بچے یتیم ہے”۔

ضلع شانگلہ کے ویلیج کونسل ڈھیری سے تعلق رکھنے والے شاکر اللہ اس گاؤں کے حوالے سے بتا رہے ہیں کہ اس گاؤں کو اسلئے یتیم کلے کے نام سے جانا جاتا ہے کہ اس میں بہت سارے مرد کوئلے میں کام کرنے کی وجہ سے موت کی منہ میں چلے گئے ہیں جبکہ بیشتر ایسے گھرانے ہیں جن میں معذوروں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔

ضلع شانگلہ کی کُل آبادی 5 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں تقریباً 80 فیصد مرد کوئلے کی کانوں میں کوئلہ نکالنے کے روزگار سے منسلک ہے جس کی بنیادی وجہ علاقہ میں تعلیم اور روزگار کے مواقع کی کمی بتائی جاتی ہے۔

اسی علاقے میں بیشتر افراد میں مختلف بیماریاں بھی پائی جاتی ہے جن میں سینے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہے۔

کوئلے کی کان میں کام کرنے والا خائستہ خان بھی سینے کی بیماری اور سانس کے مسئلے سے دوچار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے وہ مزید تشویش کا شکار ہوئے کہ کہیں انہیں وائرس کی وجہ سے وہ موت کے منہ میں نہ چلا جائے کیونکہ پہلے سے بیمار ہے۔

خائستہ خان کا کہنا ہے” جب میں کوئلے کی کان میں کام کرتا تو اس وقت کوئی بھی حکومتی اہلکار کوئلے کی کان پر ویکسین لگانے نہیں آئے تھے لیکن میری بیماری اب گھمبیر ہوچکی ہے اور صحیح طریقے سے چل بھی نہیں سکتا ہوں میری سانسیں رُک جاتی ہے”۔

خیبرپختونخوا میں کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق پر کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم سموا کے ایک عہیدیدار عابد یار کا کہنا ہے کہ کوئلے میں کام کرنے والے مزدوروں کا بنیادی مسئلہ غیرقانونی کانیں ہیں اگر اس کو قانونی شکل کے ساتھ حفاظتی وسائل فراہم کئے جائے تو مزدوروں کی جانیں بچ سکتی ہے۔

عابد یار کا کہنا ہے کہ کوئلے کی کانیں اکثر پرائیویٹ ٹھیکدار حکومت سے ٹھیکہ پر خرید لیتے ہیں مگر وہ مزدوروں کی جانوں کی تحفظ کیلئے اقدامات نہیں اُٹھاتے اور نہ حکومت اس میں سنجیدہ ہے جس کی وجہ سے کئی افراد اپنی جانیں گنوا بیھٹتے ہیں۔

عابد یار نے کوئلے کی کانوں میں حفاظتی اقدامات کی عدم دستیابی کو نہ صرف انکی جانوں کیلئے مسئلہ قرار دیا بلکہ انہوں نے کہا کہ ان میں اکثر ٹھیکدار ایک دوسرے کے مزدوروں کو اغواء بھی کر دیتے ہیں اور اپنی ذاتی مسائل میں مزدوروں کو مارا جاتا ہے۔

درہ آدم خیل میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنظیم درہ آدم خیل کول مائن لیبر یونین کے سیکرٹری اطلاعات سرفراز نے کورونا کے دوران ایس او پیز اور مزدوروں کی ویکسینیشن کے حوالے سے بتایا کہ اس وقت درہ آدم خیل میں تقریباً 400 کوئلے کی کانوں میں 1500 افراد کام کر رہے ہیں اور وہ باقاعدگی سے کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم خود محکمہ صحت اور دیگر اداروں کو درخواستیں کرتے ہیں کہ وہ کوئلے کی کانوں میں جائیں اور وہاں پر ویکیسین لگا دے اس وجہ سے مزدوروں میں کوئی بھی وائرس سے متاثر نہیں ہوا تھا۔
سرفراز کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران کے مزدوروں میں بھی کورونا کے حوالے سے منفی پروپیگنڈے پائے جاتے ہیں مگر انہیں قائل کرنے کیلئے یونین کے اہلکاروں نے کردار ادا کر دیا اور انہوں باہمی رضامندی سے ویکسین لگانا شروع کر دیئے۔
سرفراز نے کورونا وبا کے دورران ہونے والی لاک ڈاؤن پر مزدوروں کے مالی تعاؤن سے بتایا کہ جب وائرس پھیل گیا تو کانیں بند ہوگئیں اور مزدور بے روزگار ہوگئے۔ اسی دوران یونین نے صوبائی حکومت سے مالی امداد کی اپیل بھی کی مگر اب تک اس پر عمل درامد نہیں ہوا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button