پشاور میں خواجہ سراؤں اور خواتین کی سہولت کے لیے قائم خصوصی ڈیسک غیر فعال، مشکلات میں اضافہ
ام کلثوم
پشاورمیں خواجہ سراؤں اورخواتین کی سہولت کے لیے پولیس تھانوں میں قائم خصوصی ڈیسک غیرفعال ہوچکے ہیں۔پولیس سٹیشنوں میں تعینات خواتین اہلکاروں کی کم تعداد خصوصی ڈیسک کی افادیت کو نہ صرف متاثر کررہی ہے بلکہ شکایت کنندگان کی بروقت داد رسی بھی نہیں ہو پا رہی ہے۔
واضح رہے کہ خیبرپختونخوامیں خواجہ سراﺅں کےساتھ پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے پیش نظر سابق آئی جی ناصردرانی نے پولیس تھانوں میں ان کی دادرسی کےلئے خصوصی ڈیسک قائم کئے تھے۔ جو کہ اب غیر فعال ہو چکے ہیں۔
اس حوالے سے پشاور میں ٹرانس جینڈر ایسوسی ایشن کی صدر آرزو نے خصوصی ڈیسک کو ایک ناکام اور عام طور پر خواجہ سراؤں کے لیے ایک خواب قرار دیا۔ آرزو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس ایک طویل عرصے سے ہمارے خدشات کو دور کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب خصوصی ڈیسک کے ذریعے ہمیں سہولت فراہم کرنے کے اپنے وعدے سے مکر گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ٹرانسجینڈر پر تشدد کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواجہ سرا کمیونٹی کی بہتری کے لیے انہیں سہولیات فراہم کی جائیں اورخواجہ سراؤں کے جو پولیس کے ساتھ براہ راست تحفظات اور خدشات ہیں ان کو ختم کیا جائے۔
خواتین کے پولیس ڈیسک غیر فعال ہونے کی وجہ سے خواتین شکایت کنندگان کو تھانوں کے گیٹوں کے باہر دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے ، خصوصی ڈیسک کے قیام کا مقصد خواتین کے مسائل خاص طور پر گھریلوتشدد، جائیدادکے معاملات اور سنگین ناانصافیوں کو حل کرنا تھا تاہم خواتین کے سہولت ڈیسک ابتداء میں مختصر عرصہ کام کرنے کے بعد غیرفعال ہوگئے۔ جس سے خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ یہ سہولت ڈیسک پشاورکے تھانہ شرقی، گلبرگ، حیات آباد، گلبہار ،فقیرآباد اور ٹاﺅن تھانوں میں قائم کئے گئے تھے۔ پولیس فورس سے حاصل کردہ اعداد و شمار خواتین پولیس اہلکاروں کی کمی کو مزید ظاہر کرتا ہے۔ جسکے مطابق پشاور جو کہ 47 لاکھ سے زیادہ آبادی کا شہر ہے، میں صرف 95 خواتین پولیس اہلکار ہیں جن میں سے صرف 15 کو تھانوں میں تعینات کیا گیا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی ٹرانسجینڈر ماہی گل نے بتایا کہ جب بھی کسی خواجہ سرا پر تشدد ہوتا ہے ایف آئی آر کا اندراج تو ہو جاتا ہے لیکن ملزمان جلد آزاد ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سراوں کے لئے تھانہ گلبہارمیں کھلی کچہری کا انعقاد ہوا تھا لیکن یہ سلسلہ رک گیا، صوبہ بھر میں ماہانہ ایسے اقدامات ہوئے تو یقینی طور پر خواجہ سراؤں کو اپنی آواز اٹھانے میں نہ صرف مدد ملے گی بلکہ ان پر تشدد کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔
پشاور گلبہار کی رہائشی ثمینہ گل نے بتایا کہ اس کی ساس اور بہوﺅں نے اسے تشدد کانشانہ بنایا وہ اپنے بچوں کے ساتھ گلبہار تھانے میں شکایت درج کروانے گئی اگرچہ تھانے میں خواتین کےلئے ایک ڈیسک موجود تھا لیکن اس وقت ایک بھی خاتون پولیس افسر یا کانسٹیبل موجود نہیں تھی مجھے اپنی شکایت مرد عملے کے پاس درج کرانی پڑی۔
اسی طرح حیات آباد پشاور کی رہائشی عابدہ بی بی بتاتی ہیں کہ وہ شام کو حیات آباد تھانے میں قائم خصوصی ڈیسک پر وراثت میں اپنا حصہ نہ ملنے کی شکایت درج کروانے گئی تھیں جہاں انہیں پولیس کے عملے نے بدتمیزی سے کہا کہ یہ ڈیسک صرف دوپہر 2 بجے تک کام کرتا ہے لہذا مجھے اپنی شکایت درج کروانے کے لیے مرد پولیس اہلکاروں سے مدد لینی پڑی تاہم اب 25 دن ہو چکے ہیں اور وہ ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں کر سکے ہیں۔
کے پی اسمبلی میں خاتون رکن ریحانہ اسماعیل نے کہا کہ کے پی پولیس ایکٹ 2017 میں ہرحلقے میں خواتین کے لئے ایک پولیس اسٹیشن ہونا چاہیئے، فنڈ کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبہ ابھی تک صوبائی حکومت کی جانب سے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جاسکا ہے۔
دوسری جانب صوبے میں خواتین اور خواجہ سراﺅں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، حکومتی رکن فضل الہی نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے ڈیسک کے لئے خواتین پولیس افسران اور خواتین کانسٹیبلزکی کمی ہے۔ حکومت اپنے طور پر آسامیاں مشتہر کرتی ہے لیکن خواتین پولیس فورس میں شامل ہونے کو ترجیح نہیں دیتی۔ تھانوں میں خواتین پولیس اہلکاروں کےلئے رہائش اور ٹرانسپورٹ کی کمی بھی ایک بڑامسئلہ ہے۔ حکومت مسائل کے باوجوو خواتین پولیس اہلکاروں کو بھرتی کرناچاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین افسران عدالتوں اور میٹنگز،چھاپوں وغیرہ کے دوران بھی اپنے فرائض سرانجام دیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ خواتین کے ڈیسک پراضافی گھنٹے ڈیوٹی نہیں کرسکتیں۔
سی سی پی او پشاور قاسم علی خان کے مطابق پشاور میں خواتین پولیس اہلکار بھرتی کی جا رہی ہیں۔ پشاور کے تھانوں میں قائم خواتین پولیس ڈیسک کو فوری طور پر دوبارہ فعال کردیا جائیگا۔ خواتین کے ڈیسک کے جزوی طور پر کام کرنے کے نتیجے میں دیگر اضلاع میں خواتین کے مسائل میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خصوصی ڈیسک اب بھی صوبے کے بڑے اضلاع یعنی پشاور، مردان اور مانسہرہ میں کام کر رہے ہیں۔ ہم ایک جامع پولیس فورس پر یقین رکھتے ہیں اور صوبے بھر میں خواتین اور خواجہ سراؤں کی شکایات سے نمٹنے کے لیے مزید خواتین افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم خواتین اور خواجہ سراؤں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر رہے ہیں۔ خواجہ سرا کو عام شہری کے تمام حقوق حاصل ہیں۔ پولیس انہیں تھانوں میں بہتر انداز سے نمٹائیں۔ پشاور سمیت صوبے بھر میں جلد ڈیسک فعال کیے جائیں گے۔ خواجہ سراؤں کا ڈیٹا بھی اکھٹا کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کے مسائل کیوں بڑھ رہے ہیں اس پر بھی انکوائری کریں گے۔