خیبرپختونخوا میں توانائی بحران، صوبائی حکومت کے اقدامات اور عوام کی صورتحال
زاہد جان دیروی
ملک بھرمیں توانائی بحران کا سلسلہ تو کئی سالوں سے جاری ہے جس پر خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے طور پر پی ٹی آئی کے پہلے دور حکومت میں صوبہ بھر میں تین سو ساٹھ بڑے چھوٹے ڈیمز بنانے کا اعلان کیا تھا۔ جس سے صوبے میں ڈیم بننے سے آنے والے سالوں میں توانائی بحران پر بڑی حد تک قابو پا سکیں گے کیونکہ صوبے کے شمالی اضلاع ملاکنڈ و ہزارہ ڈویژن میں ڈیم بنانے کیلئے وافر مقدار میں دریاوں میں پانی موجود ہیں۔
توانائی بحران کو کم کرنے کیلئے ڈیمز اور ہائیڈل پاورز کے بعض منصوبے پی ٹی آئی دور سے قبل بھی ایم اے اے اور اس کے بعد اے این پی، پی پی پی کی حکومتوں میں اقدامات کئے گئے تھے ۔ جن میں ملاکنڈ تھری ہائیڈل پاور ڈیم ، کوٹو لوئر دیر سمال ڈیم کے منصوبے شامل ہیں۔
تاہم پی ٹی آئی کی پہلی بار جب صوبے میں حکومت میں آئی تو اس وقت کے وزیراعلی پرویز خٹک نے پارٹی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر صوبے بھر میں توانائی بحران سے جان چھڑانے کیلئے تین سو سے زائد توانائی منصوبوں کا اعلان کیا جن میں بعض منصوبوں کا عمران خان نے بھی افتتاح کیا تھا۔
جس سے صوبے کی عوام میں خوشی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی اور امید کی کرن پیدا ہوگئی لیکن بدقسمتی سے پندرہ سال گذر گئے۔ جن میں چند ایک پر کام شروع ہوا وہ بھی کیچھوے کی چال پر جاری ہے اور ان میں سے بیشتر پر کام ہی شروع نہیں کئے گئے ہیں اور ان منصوبوں کی عدم تکمیل سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہورہا ہے ۔
دیر کے شہری رحمن خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے دو ہزار دس میں بڑی تعداد میں ڈیموں کی بنانے کا اعلان کرکے صوبے کے لوگوں کے دل جیت لئے تھے کہ اب اس سے صوبے کے عوام کی توانائی مشکلات دور ہوجائے گی۔ اب صوبائی حکومت کے اعلان کردہ ہائیڈل پاور ڈیمز کب مکمل ہو کر عوام کو بجلی کے طویل لوڈشیڈنگ سے نجات دلائے گے؟
انہوں نے کہا کہ کئی سال گذرنے کے باوجود بھی ہمیں غیر مکمل شدہ ڈیمز، ہائیڈل پاورز ہاوسز کا پتہ نہ چلا اور نہ ہی بجلی لوڈشیڈنگ میں کمی ہوئی بلکہ لوڈشیڈنگ تو اب پہلے سے کئی گنا زیادہ سے ہوئی ہے گرمی کے دوران عوام کی روزانہ چیخیں نکل رہی ہیں اور اب حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز اور کارکن بھی تنگ آچکے ہیں اور قیامت خیز گرمیوں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجوں پر اتر آئیے ہیں اور پشاور سمیت مختلف علاقوں میں گرڈ اسٹیشنوں پر حملہ آور گھیراؤ کر کے عوامی نمائندے خود فیڈرز کے بٹن آن کرنے پر مجبور ہیں۔
سماجی کارکن ماہر مائیکرو ہائیڈل پاور کا کہنا ہیں، انجینئر سعیدالرحمن پچھلے کئی دہائیوں سے مختلف سیکٹرز پر کام کے ساتھ ہائیڈل پاور کے کام میں مہارت رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں ہائیڈل پاور ڈیم بنانے کے لئے متعدد چھوٹے بڑے دریا ہونے سے یہاں ہائیڈل سے درمیانے اور کم خرچ ہائیڈل پاورز بنائے کی صلاحیت وافر مقدار میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ کالام میں غیرسرکاری تنظیم ایس آرایس پی نے دو بجلی گھر بنائی ہیں جس سے پورے کالام کو بجلی سپلائی کی جاتی ہے جبکہ سرحد رورل سپورٹ پروگرام (ایس آر ایس پی ) نے اپنے طور پر اس کے علاوہ بھی درجنوں مائیکرو ہائیڈل پاورز اسٹیشن ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع اپر دیر،لوئردیر، سوات ،ملاکنڈ اور چترال میں بنائے ہیں جس سے ہزاروں کی آبادی مستفید ہو رہی ہیں۔ اگر صوبائی حکومت اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے بجلی گھر بنائے تو توانائی بحران کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
سعید نے ٹی این این کو بتایا کہ صرف ضلع اپر دیر، چترال میں بڑے، چھوٹے اور درمیانی درجے کے ہائیڈل پاور کی بہت زیادہ صلاحیت والے دریا موجود ہیں جس سے استفادہ حاصل کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہیں کہ وہ توانائی کے ایسے منصوبے بنائیں جس سے صوبے اور مقامی سطح پر عوام کو طویل لوڈشڈنگ سے نجات اور کاروباری طبقہ کو بھی خوشحالی اور سکون کا سانس مل سکیں۔
انہوں نے کہا کہ بحرین سوات کے علاقے دارل خوڑ کے مقام پر صوبائی حکومت نے چھتیس میگاواٹ ہائیڈرو تعمیرکرانے کا اعلان کیا لیکن وہ بھی جوں کے توں ہے۔ سیعد کا کہنا ہے کہ ہائیڈل پاور سے کم خرچ میں بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور اگر اسی طرح دیگر علاقوں میں بنالیں تو اس سے مقامی طور پران علاقوں کو بجلی سپلائی کی جائے تو صوبے میں بجلی بحران میں کافی کمی ممکن ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ المیہ صرف خیبرپختونخوا کا نہیں بلکہ پورے ملک میں ہے جہاں کئی علاقوں میں ونڈ، تھرمل و دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
لیکن اس میں ایک بہت بڑی وجہ اور رکاوٹ مختلف مافیاز جو آئی پی پیز و دیگر کی صورت میں موجود ہے اور حکومت میں شامل ان کے سہولت کار ایسا کرنے نہیں دیتے کیونکہ سستی بجلی بنانے سے ان کے مفادات کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جو ہم قوم کو طویل بجلی لوڈشیڈنگ کی صورت میں برداشت اوربھگت رہے ہیں ۔
توانائی بحران کیلئے خیبرپختونخوا حکومت کی اقدامات
پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ذرائع نے ٹی این این کو بتایا کہ توانائی مسئلے کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبائی حکومت کوشاں ہیں اور اس حوالے سے صوبہ خیبرپختونخوا میں چند چھوٹے ، بڑے ڈیم تعمیر کئے جارہے ہیں جن میں کئی ڈیم کے منصوبے مکمل جبکہ بعض پر کام کا سلسلہ جاری اور بیشتر التوا کے شکار ہے۔ جن میں سب سے بڑا توانائی منصوبہ لوئر دیر میں کوٹو، شگئی کس کے مقام پربنائے جارہے ہیں۔
کوٹو اکیتالیس میگاواٹ ہائیڈل پاور ڈیم لوئر دیر
کوٹو ہائیڈل پاور ہاؤس ڈیم ضلعی ہیڈ کوارٹر سے تیمرگرہ سے دیر روڈ پر شمال کی طرف سات کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوٹو حاجی آباد کے مقام پر دریائے پنجکوڑہ پر بنایا گیا ہے منصوبے کی شناخت پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) اور جی ٹی زیڈ جرمنی نے 1992 میں مشترکہ طور پر کی تھی۔ اکیتالیس میگاواٹ کا ہائیڈل پاور اسٹیشن کو قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے 18 اگست 2014 کو 13.9 بلین روپے کی نظرثانی شدہ لاگت کے ساتھ اس منصوبے کی منظوری دی۔
ہائیڈل پاور پراجیکٹ ذرائع کے مطابق کوٹو ہائیڈل پاور پر تقریبا 95 فیصد سے زائد کام مکمل ہوگیا ہے اور دو ہزار چوبیس کے آخر تک اسکا افتتاح بھی ہو جائیگا جس سے مقامی علاقوں کو بجلی کی ترسیل دی جائے گی اور باقی نیشنل گرڈ ڈالی جائیگی ۔ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اس سے علاقے میں ترقی کا نیا دور شروع ہوگا اور یومیہ اکتیالیس میگاواٹ جبکہ سالانہ ۲۰۷ گیگاواٹ بجلی کی فراہمی ممکن ہوگی۔
ابراش پاشا جو پیشے کے لحاظ سے سماجی کارکن و ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ کے طور پر لوئر و اپر دیر میں کام کررہے ہیں، کا کہنا ہے کہ کوٹو پاور پراجیکٹ کی تعمیر ایک معمہ بن چکا ہے اور اس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہے کہ کب مکمل ہوگا جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ ابراش پاشہ نے کہا کہ اس میں متعدد بار تکمیل کا دورانیہ تبدیل کیا گیا کبھی ایک تو کبھی دوسری تاریخ دے رہا ہے۔
ابراش پاشا کا کہنا ہے کہ ایک تو مزکورہ پراجیکٹ دو ہزار چودہ میں شروع کیا تھا اور دو ہزار اٹھارہ میں مکمل ہونا تھا لیکن بروقت مکمل نہ ہوسکا۔ جس سے مقامی لوگوں کو توانائی بحران سے نکلنے میں مدد نہ مل سکا اور دوسری جانب اس کی بروقت تکمیل نہ ہونے سے حکومت کو اس سے آمدن ابھی تک شروع نہ ہوسکا ۔ جبکہ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ مسلسل تاخیر ہے اور اس کیلئے مشنری باہر ممالک سے لانے میں بھی اربوں روپے کی اضافی رقم بڑھ جاتی ہےجو ملک و قوم پر مزید بوجھ ہے کہ پاکستان جیسے غریب کے عوام کیلئے دینا ناممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آیا میرے ذہن جو سوال ہے اسکا جواب پیڈو کے پاس ہے ؟ کہ آنے والے دنوں ،سالوں میں اس کی گنجائش اکتیالیس میگاواٹ کے مطابق اتنی ہی بجلی فراہم ہوگی ؟ کیونکہ گلوبل وارمننگ کے باعث گلیشئر پھگلنے سے دریاوں میں آنے والے سالوں میں پانی کے بہاو میں کافی کمی آئے گی۔
ابراش کہتے ہیں کہ ڈیم اور ہائیڈل پاور پراجیکٹ کو مکمل کرنے میں بار بار تبدیلی اور تاخیر سے عوام میں بھی بے چینی بڑھتی جارہی ہے کیونکہ ایک طرف شدید گرمی میں کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر اب بھی اسے دو ہزار چوبیس کے اواخر تک آپریشنل کیا جائے تو عوام سکھ کا سانس لےگا۔
انہوں نے بتایا کہ ہائیڈل پاور تکمیل کے بعد بجلی ترسیل نیشنل گرڈ اسٹیشن کو نہ دیی جائے بلکہ اسے ضلع لوئردیر،اپر دیر کے مقامی لوگوں کو دیاجائے تو اس سے یہاں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوگا اور نیشنل گرڈ سے اب استعمال ہونے والی بجلی کا بچت ہوگا جس کا فائدہ واپڈا اور ضلع دیر کے عوام کو ہوگا ۔ جبکہ دوسری جانب سے مقامی طور پر بجلی فراہمی سے یہاں انڈسٹریز اباد ہوجائیں گے جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملے گی۔
التواٗ کے شکار بڑے ہائیڈل پاورز اسٹیشن
پختونخوا انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن( پیڈو) کی دستیاب تفصیلات کے مطابق اپردیر میں شڑمائی کے مقام جو دیر شہر سے سات کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے دو ہزار پانچ میں اس کی فزیبلٹی دریائے پنجکوڑہ پر شڑمائی کے مقام پر بنائی گئی تھی۔ جس سے ایک سو پچاس میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ ابھی تک التوا کا شکار ہے جس سے وافر مقدار میں بجلی کی پیداوار سے ملاکنڈ ڈویژن میں بجلی کی کمی کو دور کیا جاسکتا تھا لیکن اس سائیٹ پر اب تک کچھ آثار دکھائے نہیں دے رہا ہے۔
پیڈو ذرائع کے مطابق کئی بار ابتدائی سروے کے بعد کام شروع ہوتے ہوتے دونوں انرجی اداروں کی ٹیریف اور فی یونٹ فراہم 150 خرید و فروخت پر مزکورہ بڑا توانائی منصوبہ اب تک التوا کا شکار ہے۔ جس سے ذرائع کے مطابق ایک سو پچاس میگاواٹ بجلی پیدا کی جانی تھی پہلے اس کیلئے چالیس بیلین روپے لون شڑمائی ہائیڈل پاور اپر دیر کیلئے چائنیز ایگزم بنک نے فراہم کیا تھا لیکن ذرائع کے مطابق اب تک اس پر کام شروع نہ ہوسکا۔
میگاواٹ منصوبہ بھی التوا کا شکار 69 لاوی دروش چترال ہائیڈل پاور
لاوی دروش ہائیڈل پاور اسٹیشن کاافتتاح سابق وزیر اعلی امیرحیدر خان ہوتی نے دو ہزار گیارہ،بارہ میں کیا تھا اور اس پاوراسٹیشن سے کل انہتر میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا تھا تاہم تب سے اب تک اس پر بار بار کام شروع اور بند کیا جاتا ہے۔
پیڈو خیبرپختونخوا کے اہلکار فرضی نام حمید خان نے بتایا کہ پیڈو کے زیر انتظام صوبہ کے مختلف علاقوں میں چھوٹے اور بڑے ہائیڈل پاور پراجیکٹ اور مائیکرو ہائیڈرو پراجیکٹ جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پیڈو کے ذریعے ملاکنڈ میں اکیاسی میگاواٹ کا بجلی گھر، سوات میں چھتیس میگاواٹ ، صوابی میں آٹھارہ میگاواٹ ، چترال میں بارہ میگاواٹ جبکہ مردان میں دو اعشاریہ چھ میگاواٹ کے منصوبے مکمل کئے گئے ہیں۔
جبکہ سوات میں گبرال ،کالام ،اپردیر میں بریکوٹ، شرینگل، کلکوٹ، شڑمائی، پاتراک اور الماس پر بھی عنقریب کام شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ اور اس کے علاوہ جس میں بوری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ مانسہرہ پر 94 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ باقی ماندہ کام رواں سال کے دسمبر تک مکمل کر لیا جائے گا۔
اس منصوبے سے سالانہ 71.1 گیگا واٹ توانائی حاصل ہوگی ضلع شانگلہ میں قائم کیے جانے والے کاروڑا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے بارے میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر منصوبے کا 88 فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ باقی ماندہ کام آئندہ سال جنوری تک مکمل کرلیا جائے گا۔
قومی اقتصادی کونسل کے ایگزیکٹو کمیٹی کے اعلی سطحی اجلاس میں بتایا کہ 157 میگاواٹ مدین اور 88 میگا واٹ گبرال کالام ہائیڈرو پاور پراجیکٹس منصوبوں کی منظوری دی ہے بالاکوٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ۳۰۰ میگاواٹ پررواں سال کام شروع ہو گا۔
خیبرپختونخوا میں اس وقت 7 منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں مانسہرہ میں جبوری 10.2 میگاواٹ، شانگلہ میں کروڑہ 11.8 میگاواٹ، سوات میں گورکن مٹلٹان 84 میگاواٹ، دیر لوئر میں کوٹو 40.8 میگاواٹ، چترال میں 69 میگا واٹ لاوی، 300 میگاواٹ بالاکوٹ، کرم میں چپڑی چارخیل 10.56 میگاواٹ کے منصوبے شامل ہیں۔
تاہم ان منصوبوں میں جبوری، کروڑہ اور کوٹو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس اس سال دسمبر تک مکمل ہوجائیں گے۔ منصوبوں کی تکمیل سے سسٹم میں دسمبر تک 60 میگاواٹ سے زائد بجلی شامل ہوجائیگی۔
چترال کے مقامی سینئر صحافی ظہیر الدین نے واپڈا اور پیڈو ذرائع سے تصدیق کے بعد ٹی این این کو بتایا کہ مزکورہ پراجیکٹ پر اب تک چالیس فیصد کام ہوا ہے۔ جس کے بعد ناگزیر وجوہات کی بنا پرکام بند ہے اس لئے مزکورہ پراجیکٹ بھی تعطیل کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گنگورنی سنگور ، ریشن ،شیشی کوہ ، گرم چشمہ اور لاوی دروش پر بھی کام زیر تکیمل مراحل میں ہے لیکن اب تک اسے مکمل نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر سرکاری تنظیم ایس آر ایس پی کی مثال ہماری سامنے ہے، اس تنظیم نے ملاکنڈ ڈویژن میں منی ، مائیکرو ہائیڈل بجلی گھر بنائی گئی ہے جس سے ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف تمام اضلاع مقامی لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ ظہیر کا کہنا ہے کہ ایسے چھوٹے ،چھوٹے ہائیڈل پاور اسٹیشنز پر چند لاکھ کا خرچہ آتا ہے جس سے بڑے ہائیڈل پاور پر پیسہ اور بھاری آخراجات کے ضیاع سے بچا یا جا سکتا ہے ۔
جیسا کہ ایس آر ایس پی و دیگر غیر سرکاری تنظیموں نے اپردیر ،لوئر دیر، چترال ،سوات، شانگلہ ،بونیر و دیگر اضلاع میں یہ تجربہ غیر سرکاری تنظیوں اور خود عوام نے اپنے طور پر ایسے کئی پن بجلی گھر پچاس، سو ، کلوواٹ سے لیکر پانچ میگاواٹ تک کامیابی سے بنائے ہیں ۔