خیبر پختونخواعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

مس انفارمیشن اور فیک نیوز کی بھرمار، آخر تصدیق کیسے کی جائے؟

محمد بلال یاسر

پچھلے ہفتے خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ ، بھگدڑ وغیرہ کی بناء پر پیدا ہونے والے حالات کے بعد خیبرپختونخوا سمیت ملک کے طول و عرض میں سانحہ بنوں موضوع بحث بن گیا۔ اسلام آباد سے خیبر تک اس کی بازگشت سنائی دی۔ مگر ابتدائی ایک دو روز تک نہ ہی صوبائی حکومت اور نہ ہی دیگر حکام نے اس حوالے سے کوئی موقف پیش کیا اور ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ بنوں میں نیٹ ورک ، انٹرنیٹ جبکہ پورے ملک میں فیس بک، واٹس ایپ سمیت دیگر سوشل میڈیا سروسز بند کردی گئی۔

جس کے وجہ سے وی پی این کے ذریعے ملک بھر سے اور بیرون ملک بیٹھے سوشل ایکٹویسٹ نے ویورز اور فالورز کے چکر میں ڈس انفارمیشن پھیلانی شروع کردی۔ ہر لمحے بنوں میں اموات اور زخمیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مگر کوئی اس کی تصدیق کرنے کو تیار نہ تھا۔

اس میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹ افراد سے لیکر کئی سنیئر صحافی اور پارٹیوں کے سوشل میڈیا ہیڈ بھی شامل ہوگئے اور ملک بھر میں مس انفارمیشن نے عوام کو شدید اذیت میں مبتلا کردیا ۔ اگلے روز جب صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے میڈیا سے گفتگو کی تو صرف ایک شخص کے واقعات میں مر جانے کی تصدیق ہوگئی ۔ اور زخمیوں کی تعداد بھی نہایت کم رہی۔

مس انفارمیشن کیوں پھیلی ؟

فیکٹ چیک اور ڈس انفارمیشن سمیت دیگر اہم موضوعات پر کام کرنے والے پشاور کے سنیئر صحافی لحاظ علی نے بتایا کہ بنوں واقعہ میں حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی تھی جبکہ دوسری جانب پروپیگنڈا کرنے والوں کو جو ویڈیوز اور تصاویر ہاتھ لگی تھی اپنی مرضی کے کیپشن کے ساتھ نشر کرتا ، مارکیٹ میں حقیقی انفارمیشن نہ تھی اس لیے مس انفارمیشن پھیلتی رہی۔

باجوڑ میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات سے وابستہ سنیئر صحافی حنیف اللہ جان نے بتایا کہ مس انفارمیشن پھیلنے کی بنیادی وجہ سے پروپیگنڈے کو پروموٹ کرنا تھا۔ اس میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو ریاست مخالف پروپیگنڈے میں پیش پیش رہے۔ جنہوں نے کسی بھی ویڈیو اور خبر سے پہلے تصدیق کرنا مناسب نہ سمجھا اور سوشل میڈیا پر مختلف کیپشن کے ساتھ پرانی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیی۔

مس انفارمیشن کے نقصانات کیا ہے ؟

ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی پر لوگوں کا انحصار کم کر کے انہیں ایک متبادل میڈیا دے دیا ہے۔ یوں لاکھوں کروڑوں معلومات تخلیق کرنے والوں کی موجودگی میں ہم پر انفارمیشن کی بہتات ہونا ایک قدرتی بات ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی غیر مرئی دنیا میں انجام دیئے جانے والی افعال حقیقی دنیا میں حقیقی لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جن صحافیوں اور سیاست دانوں پر گستاخ یا غداری کا بے بنیاد لیبل لگا دیا جاتا ہے، ان سے نہ صرف ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ ان کی اور ان کے خاندان کی جانوں کو بھی خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ صحافیوں کو ایسی خبر دینے سے بچنا چاہئے جس میں سچائی نہ ہو اور وہ صحت اور معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہو۔

مس انفارمیشن اور فیک نیوز سے کیسے بچا جائے ؟

باجوڑ کے سنیئر صحافی حنیف اللہ جان کہتے ہیں کہ کسی بھی خبر کی حقیقت جاننے کیلئے سات کام کرنے ضروری ہیں۔

سب سے پہلے معلومات کا ماخذ یعنی source جاننا چاہیئے، دوسرا یہ کہ خبر کی تفصیلات کہاں سے آئی، تیسرا مصنف کے بارے میں جاننا چاہیئے کہ خبر اور سٹوری کس نے کی ہے اس کی حیثیت کیا ہے ؟، چوتھا خبر اور سٹوری کی تاریخ ضرور دیکھیئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کئی سال پرانی خبر شیئر کی گئی ہو، پانچویں بات یہ کہ معلومات سے کس کو فائدہ ہوگا کہیں ایسا تو نہیں کہ پروپیگنڈا تنظمیں اپنے مقاصد کیلئے ایسا کررہے ہیں، آخری بات کہ صرف ہیڈلائن پہ اکتفا مت کیجیئے کیونکہ بسا اوقات ہیڈ لائن میں کچھ اور تفصیل میں کچھ اور لکھا ہوتا ہے ۔

دنیا بھر میں فیک نیوز کی روک تھام کے لیے اقدامات ؟

خبروں کی درستگی کی تصدیق اور غلط معلومات کو ختم کرنے کے لیے کئی ممالک میں حقائق کی جانچ کرنے والی تنظیمیں قائم کی گئی ہیں۔ لوگوں کو جعلی خبروں کی شناخت کرنے، ذرائع کا اندازہ لگانے اور میڈیا کے تعصب کو سمجھنے کے لیے تعلیمی پروگرام تیار کئے جا رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے اپنے پلیٹ فارمز پر جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے پالیسیاں نافذ کی ہیں جن میں جھوٹے مواد کو ہٹانا اور ایسی پوسٹس کو لیبل لگانا شامل ہیں جن کی حقائق کی جانچ کی گئی ہے۔ کچھ پلیٹ فارمز نے سیاسی اشتہارات پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس حوالے سے نہایت سخت قوانین وضع کئے گئے ہیں مگر پاکستان میں اس پر کام کرنا باقی ہے ۔

فروری 2020 میں پاکستان میں وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے قانون کی منظوری دے دی تھی۔ جس کے تحت یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک کے لیے اسلام آباد میں دفتر کھولنا لازمی قرار دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں 50 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا۔ اس وقت کے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی مخالفت کے باوجود پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قواعد میں ترمیم کر دی تھی مگر تاحال ایسی کسی قسم کی قانون سازی نہیں کی جاسکی۔

Show More

Muhammad Bilal Yasir

محمد بلال یاسر پچھلے 8 سال سے قبائلی ضلع باجوڑ سے ٹی این این کیلئے ہفتہ وار کالم اور سٹوریز لکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مختلف ملکی و بین الاقوامی ویب سائٹس کے لیے بھی لکھتے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button