کال، پیغامات ریکارڈ کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے: وکلاء، صحافی برہم
رفاقت اللہ رزڑوال
وکلاء اور صحافیوں نے حکومت کی جانب سے پاکستان کے خفیہ ادارے انٹرسروس انٹلی اینٹلیجنس (آئی ایس آئی) کو فون اور پیغامات ریکارڈ کرنے کے اختیار کو آئین کے بنیادی حقوق سے متصادم عمل قرار دیا ہے جبکہ حکومت نے اس عمل کو دہشتگردی اور جرائم کی روک تھام میں مدد دینے والا اقدام قرار دیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے پیر کے روز اسمبلی کے فلور پر بتایا تھا کہ فون ٹیپ کرنے کا عمل دہشتگردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی حد تک محدود ہونگے تاہم حکومت شہریوں کی شہری آزادی اور راز داری کے حق کو یقینی بنائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی گزشتہ کئی حکومتوں نے خفیہ اداروں کو اعلامیوں کے تحت ٹیلیفون ٹیپ کرنے کا اختیار دیا تھا۔
حکومت نے اپنے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا ہے کہ پاکستان کے مواصلاتی ادارے پی ٹی اے کے 1996 ایکٹ کی شق 54 کے تحت خفیہ ادارے کو ٹیلیفون کالز اور پیغامات ریکارڈ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
قانونی ماہرین اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ اعلامیہ انسانی بنیادی حقوق، تحقیقاتی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل سجاد محسود نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان کی آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق ہر شہری کی ذاتی زندگی اور اُن کے وقار کو تحفظ حاصل ہے۔ اس شق میں معلومات اور گفتگو کے تحفظ کا واضح ذکر کیا گیا ہے۔
ایڈوکیٹ سجاد کے مطابق آرٹیکل 14 شہریوں کے گھر، ماحول اور جان کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتا ہے اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شہریوں کے یہ حقوق پامال کریں یہاں تک کہ قانون شہادت کی رو سے دیکھا جائے تو عدالت کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سے ذاتی زندگی کے گفتگو کے بارے میں پوچھیں۔
سجاد محسود کہتے ہیں "حکومت نے جو فیصلہ کیا ہے اس کا آئین میں کوئی راستہ موجود نہیں کیونکہ اس سے شہریوں کی ذاتی زندگی متاثر ہونے کا خطرہ موجود ہے”۔
وکیل سجاد کا کہنا ہے ” اگر سیکشن 54 کے آئین کے آرٹیکل 14 سے موازنہ کیا جائے تو یہ قانون بنیادی طور پر متصادم ہے لیکن اگر یہ قانون نافذ بھی ہو جائے تو سوال یہ ہے کہ کالز کس کی ریکارڈ ہونگی، ان کا استعمال کیسے ہوگا اور اُسے کن مواقع پر شیئر کیا جائے گا؟”
انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے پاس ایسے فیصلوں کا اختیار نہیں جس میں آئین کے بنیادی حقوق متاثر ہو اگر پھر بھی حکومت حالات کے مطابق ضروری سمجھے تو اس کے لئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی مگر یہ مشکل ہے کیونکہ بنیادی حقوق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
سجاد محسود نے ماضی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں اس قانون کی استعمال کو منفی قرار دیا ہے "وہ اسلئے کہ پہلے اگر کوئی اثر رسوخ کی بنیاد پر کسی کا ذاتی ڈیٹا نکال کر لیک کرتے تو ایف آئی اے والے نوٹس لیتے اور اصل ملزم تک پہنچتے مگر اس کے بعد یہ تعین نہیں ہوسکے گا کہ لیک شُدہ ڈیٹا کس نے لیک کیا ہے”۔
9 جولائی کو حکومت کے جاری شدہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی اے ایک مخصوص نظام کے تحت خفیہ اداروں کو ٹیلیفونک ڈیٹا دینے کی پابند ہوگی۔
حکومتی اعلامیے پر صحافیوں نے سخت ردعمل دکھا کر کہا ہے کہ ایسے ہتھکنڈے آزادی اظہار رائے اور تحقیقاتی صحافت پر منفی اثرات مرتب کریں گے۔
چارسدہ کے سینئر صحافی نصرت حسین طوفان نے ٹی این کو بتایا کہ پاکستان میں شہریوں، سیاستدانوں، ججز اور صحافیوں کے ٹیلیفون کالز ریکارڈ کرنا کوئی نئی بات نہیں مگر اب اس عمل کو قانونی شکل دینا نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ان کا کہنا ہے "ہر صحافی کا کسی نہ کسی ادارے میں خفیہ سورس ہوتا ہے جو وہاں سے معلومات دیتے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر صحافی صرف اس مقصد کیلئے لکھتے ہیں تاکہ ادارے کی اصلاح ہوجائے لیکن اگر کال ریکارڈ کرنے کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو تو سورس کبھی بھی صحافیوں کو خبر نہیں دے گا جس سے تحقیقاتی صحافت متاثر ہوجائے گی”۔
نصرت حیسن کہتے ہیں کہ ہم دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائیوں سے اختلاف نہیں رکھتے مگر ماضی میں سیاستدانوں، ججز اور صحافیوں کی ذاتی زندگیوں کے متعلق آڈیو لیکس کرنے جیسے واقعات کا خدشہ ضرور رکھتے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے اس حکم پر ازسر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اسی فیصلے پر عمل درآمد شروع ہوا تو کل یہ فیصلہ حکومت میں بیٹھے شخصیات کے گلے کا بھی پھندا بنے گا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی غیرسرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے 10 جولائی کو اپنی جاری کردہ پریس ریلیز میں اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے خلاف آئین قرار دیا ہے۔