کیا ریسکیو 1122 دریائے سوات سے صرف لاشیں برآمد کرے گی یا ضلعی انتظامیہ محض ایک اعلامیہ جاری کر کے بری الذمہ ہو جائے گی؟
رفیع اللہ خان
سوات میں گزشتہ 10 دنوں کے دوران سات افراد دریائےسوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ جن میں ایک بچی کو زندہ نکالا گیا ہے جبکہ تین نوجوانوں کے جسد خاکی برآمد کر لئے گئے ہیں۔ اور تین نوجوانوں کی تلاش تاحال جاری ہے۔ڈوبنے والوں میں بچے اور زیادہ تر نوجوان شامل ہے جن کی عمریں 25 سال سے کم بتائی گئی ہے۔
سوات میں جون، جولائی اور اگست کے مہینے میں گرمی کی شدت میں اضافے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ دریائے سوات کا رخ کرتے ہیں۔ جس میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے وہ گرمی کا زور کم کرنے کے لئے دریا میں نہاتے اور بعض تیرتے بھی ہیں تاہم زیادہ تر نوجوان بے احتیاطی اور لا علمی کے باعث دریائے سوات میں ڈوب جاتے ہیں اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
سوات میں ریسکیو 1122 کی ترجمان شفیقہ گل نے ٹی این این کو بتایا کہ گزشتہ دس دنوں کے دوران سات افراد دریائےسوات میں ڈوب گئے ہیں ان کے مطابق 19 جون کو شموزئی پل کے ساتھ 13 سالہ بچی دریائے سوات میں ڈوب گئی تھی جسے ریسکیو 1122 کے جوانوں نے زندہ نکال کر ابتدائی طبی امداد فراہم کرتے ہوئے فوری طور پر بریکوٹ ہسپتال منتقل کر دیا تھا۔
شفیقہ گل نے بتایا ہے کہ 24 جون کو تحصیل بحرین کے علاقے آرین کے مقام پر 9 سالہ سبحان درال خوڑ میں ڈوب گیا تھا جو ابھی تک ریکور نہیں ہوا ہے۔
24 جون کو ہی فضاگٹ بائی پاس میں دو نوجوان گوہر اور لیاقت دریائے سوات میں ڈوب گئے تھے جس میں گوہر نامی نوجوان کا جسد خاکی برآمد کر لیا گیا تھا جبکہ لیاقت نامی نوجوان کی تالاش تاحال جاری ہے۔
اسی طرح 25 جون کو مزید دو افراد دریائے کی بے رحم موجو کی نذر ہوئے تھے، کانجو پل کے قریب 15 سالہ امیر حمزہ اور تحصیل مٹہ کے علاقے شکردرہ میں اکبر الدین نامی نوجوان ڈوب گئے تھے۔ جن میں ریسکیو 1122 اور رضا کار محمد ہلال نے آپریشن کے دوران آج 15 سالہ امیر حمزہ کی جسد خاکی برآمد کر لیا ہے۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان کے مطابق 26 جون کو ریسکیو 1122 کے جوانوں نے سرچ آپریشن کے دوران ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے فرمان علی کا جسد خاکی برآمد کر لیا ہے۔
شفیقہ کے مطابق پانی میں ڈوبنے کے واقعات میں لاپتہ تین افراد کی تلاش کے لئے چار مختلف مقامات پر ریسکیو 1122 کا سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن آج تیسرے روز بھی جاری ہے جس میں 9 سالہ سبحان سمیت اکبر الدین اور لیاقت کی تلاش جاری ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے 7 جون 2024 کو نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جس کے تحت دریائے سوات میں نہانے، تیرنے اور کشتی رانی پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی تاہم اس کے باوجود ایسے واقعات کا رونماء ہونا ایک سوالیہ نشان ہے۔
نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ موسم گرما میں ضلع سوات کے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں اور مقامی لوگوں کی اکثریت دریائے سوات میں نہانے اور کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتی ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے اور اس میں متعدد لوگوں کے ڈوبنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سوات/ڈپٹی کمشنر سوات شہزاد محبوب نے دفعہ 144 ضابطہ فوجداری کے تحت پورے ضلع میں دریائے سوات میں نہانے، تیراکی اور کشتی رانی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ خلاف ورزی کرنے پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 188کے تحت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ضلعی انتظامیہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ ہر سال گرمی کے موسم میں لوگ دریائے سوات میں ڈوب جاتے ہیں لیکن کیا یہ کافی ہےکہ ضلعی انتظامیہ ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے خود کو بری الذمہ کر دے؟ کیا ریسکیو 1122 صرف لاشیں برآمد کرے گی یا ضلعی انتظامیہ لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لئے آگاہی مہم چلانے کے ساتھ کوئی عملی اقدامات بھی اٹھائے گے؟
اگر ابھی تک کوئی عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں تو وہ کیا ہے؟ اور ان سے کیا بہتری آئی ہے؟ کیا ضلعی انتظامیہ نے دریائے سوات کے کنارے Lifeguard بھی تعینات کئے ہیں یا نہیں؟
رپورٹس کے مطابق دریائےسوات میں غیر قانونی کھدائی کی وجہ سے بھی لوگ ڈوب جاتے ہیں اگر اس میں صداقت ہے تو اس کے تدارک کے لئے ضلعی انتظامیہ نے ابھی تک کیا کردار ادا کیا ہے؟ کیا دریائے سوات میں نہانے پر مکمل پابندی کی وجہ سے گرمی سے بے حال لوگوں کے حقوق غصب نہیں ہونگے؟ کیا ضلعی انتظامیہ گرمی کا احساس کرتے ہوئے ایسے مقامات کی نشاندہی نہیں کر سکتی تھی جہاں لوگوں کے ڈوبنے کا خطرہ موجود نا ہو؟
ان تمام سوالوں کے جوابات جاننے کے لئے ٹی این این نے ضلعی انتظامیہ کے افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کسی سے رابطہ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے ان تمام سوالات کے جوابات نہ مل سکے۔
یاد رہے کہ سال 2023 میں دریائے سوات میں 55 افراد ڈوب گئے تھے، ریسکیو 1122 کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال یکم جنوری سے 26 جون تک 28 افراد ڈوب گئے ہیں جو ایک بہت بڑی تعداد ہے تاہم بچوں اور نوجوانوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لئے اداروں کو عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔